کوک اسٹوڈیو ۔۔ پاکستان کا ایسا میوزیکل شو۔۔ جو تخلیق کی حدوں سے بھی کہیں آگے کا جیتا جاگتا روپ ہے۔ اس پروگرام کے پاکستانی سروں کی دنیا پر کئی احسانات ہیں۔
اول ۔۔ ایسے دور میں جب پاکستان میں میوزک کے نام لیوا بھی ختم ہونے لگے تھے ،’ سر‘ اور ’تال ‘ کے چاہنے والوں نے انجانے ملکوں کو اپنی منزل سمجھا لیا تھا ۔۔ کوک اسٹودیو نے ملکی موسیقی کو نہ صرف پھر سے زندہ بلکہ غیر ہوتی ملکی آوازوں اور سروں کے قدم انجانے منزلوں کی طرف اٹھنے سے روک دیئے۔ اس دور کا کون سا فنکار تھا جس نے پڑوسی ملک کی سرحدیں عبور کرنے کا نہ سوچا ہو۔۔
دوم ۔۔ علاقائی زبانوں کے سنگرز اور روایتی موسیقی کو یکجا کر کے یکجہتی کا وہ پیغام دیا جو نہ ارباب اختیار کر سکے اور نہ واعظ۔
یہی کوک اسٹوڈیو اب ایک بار پھر پاکستان کے 70 ویں یوم جشن آزادی پر قومی ترانے کو 40 فنکاروں کی آواز میں ایک انداز کے ساتھ پیش کر رہا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اتنے زیادہ فنکاروں کو قومی ترانہ پڑھتے دکھایا گیا ہے۔
اگرچہ ناقدین کا کہنا ہے کہ ترانہ اس قدر دھیمے اور سست انداز میں پڑھا گیا ہے کہ اس سے قومی ترانے کے لئے درکار ’جو ش و جذبہ اور ولولہ‘ ہی نکل گیا لیکن اس طرح کی کوشش بہرحال نیا انداز لئے ہوئے ہے۔
ترانہ دراصل سیزن دس کے آغاز کا ’پائلٹ‘سانگ ہے۔ نیا سیزن 11 اگست سے شروع ہونے جا رہا ہے۔
سیزن دس سے متعلق ’کوک‘ کے جنرل منیجر رضوان یو خان اور پروگرام کی پروموشن کمپنی ’پبلی سسٹ‘نے وی او اے کو بتایا :
'’قومی ترانے کی ریکارڈنگ ’اسٹرنگز ‘ کی مرہون منت ہے ۔ ہمارے لئے 40 فنکاروں کو بیک وقت ایک چھت کے نیچے اکھٹا کرنا اور مختلف موسیقی کے آلات کو استعمال کرتے ہوئے ایک نئے انداز میں ترانہ ریکارڈ کرنا چیلنج سے کم نہیں تھا۔ یہ وہی 40 آرٹسٹس ہیں جو سیزن دس میں پرفارم کر رہے ہیں۔ ہمیں فخر ہے اپنے ہر ٹیم ممبر پر جس نے اپنے اپنے طور پر بہتر پرفارمنس کے ساتھ اس مشکل کام کو آسان کر دکھایا۔‘‘
چالیس سنگرز میں عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی، حمیرا ارشد، نبیل شوکت، قراۃ العین بلوچ، عمیر جسلوال، علی حمزہ، علی نور، راحت فتح علی خان، علی ظفر، دانیال ظفر، مومنہ مستحسن، ساحر علی بگا، سجاد علی، احمد جہانزیب، شفقت امان علی، سلمان احمد، حمیرا چنا، جاوید بشیر، سانول وغیرہ شامل ہیں۔