پاکستان اور افغانستان کے درمیان انگور اڈہ کے سرحدی پوائنٹ پر تجارت چھ روز سے بند ہونے کے باعث دونوں ممالک کے تاجر تشویش کا شکار ہو رہے ہیں۔
انگور اڈہ کے مقام پر تجارت اور آمدورفت معطل ہونے کی وجہ پاکستان اور افغانستان کے دو تاجروں کے درمیان لین دین کا تنازع بتایا جا رہا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق مذکورہ تاجروں نے انگور اڈہ کے مقام پر کئی گاڑیاں روک رکھی ہیں جس کی وجہ سے سرحد پر تجارت بند ہے۔
انگور اڈہ کے علاوہ بھی دیگر سرحدی گزرگاہوں پر بھی سرکاری اداروں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث تجارت میں رکاوٹوں کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔
تاجروں کے مطابق رکاوٹوں کے باعث دونوں ملکوں کا تجارتی حجم کم ہو کر 800 ملین ڈالر تک رہ گیا ہے جو 2016 تک 1.3 ارب ڈالر تھا۔
'ہر محکمہ الگ، الگ چیکنگ کرتا ہے'
سرحدی گزرگاہ طورخم میں کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ قاری تنظیم گل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فاٹا انضمام سے قبل قبائلی انتظامیہ کے ذریعے تمام معاملات طے کیے جاتے تھے۔ لیکن اُن کے بقول قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد مشکلات بڑھی ہیں۔
اُن کے بقول پاکستان کسٹم، وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے)، فرنٹیئر کور، نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) نے بھی اپنے دفاتر سرحد پر کھول لیے ہیں۔
قاری تنظیم گل کہتے ہیں کہ یہ تمام ادارے سامان سے لدے ٹرکوں کو چیک کرتے ہیں جب کہ دستاویزات کی بھی ہر محکمہ چیکنگ کرتا ہے جس سے لامحالہ تاخیر ہوتی ہے۔
سرحدی قصبے لنڈی کوتل کے سینئر صحافی مہراب آفریدی کہتے ہیں کہ کاغذات کی جانچ پڑتال، گاڑیوں میں لدے سامان کی کلیئرنگ اور اسکیننگ میں سست روی کے نتیجے میں ٹرک تین سے پانچ روز تک سرحد پر کھڑے رہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بدھ تک سامان سے لدی گاڑیوں کی قطاریں جمرود تک پہنچ چکی ہیں۔
'حکام کو سر جوڑ کر مسئلے کا حل نکالنا چاہیے'
کسٹم ایجنٹ ایلان علی بھی سرحد پر سست روی سے پریشان ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تمام حکومتی محکموں کو ایک ساتھ بیٹھ کر ایسا نظام وضع کرنا چاہیے جو کم سے کم وقت میں سامان کلیئر کرے۔
پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ چیمبر آف کامرس کے وائس چیئرمین ضیاء الحق سرحدی بھی ان مشکلات کا اعتراف کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سرحدی رکاوٹیں دُور کرنے کے لیے دونوں ممالک کے تاجر متعلقہ حکام سے مل کر بات چیت کر چکے ہیں۔ لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔
اُن کا کہنا تھا کہ وفود کے تبادلوں اور مذاکرات کے باوجود مشکلات اور مسائل جوں کے توں رہنے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
ان کے بقول بعض عناصر افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کے فروغ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔
حال ہی میں پاک، افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے چیئرمین زبیر موتی والا نے حکام سے طورخم بارڈر پر کنٹینرز سے لدی گاڑیوں کی سست رفتاری پر بات بھی کی تھی۔
زبیر موتی والا نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’یہ سست روی مزید جاری رہی تو اس سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ (اے ٹی ٹی) اور باہمی تجارت متاثر ہو گی۔
سرکاری اداروں کا مؤقف
دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے لیے مرکزی گزرگاہ طورخم میں تعینات پاکستان کسٹم کے ایڈیشنل کلکٹر محمد رضوان سرکاری اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی شکایات کو مسترد کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چند ماہ قبل تودہ گرنے سے سڑک متاثر ہوئی تھی جس کے باعث آمدورفت میں کچھ خلل آیا تھا۔
محمد رضوان نے سرکاری اداروں میں ہم آہنگی نہ ہونے کے الزام کو بھی رد کرتے ہوئے کہا کہ ممنوعہ اشیا کی اسمگلنگ روکنے کے لیے چیکنگ کی جاتی ہے۔
فورم