پاکستان میں ایک جانب بجلی کے زائد بلوں کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں جب کہ دوسری جانب عوامی حلقے سرکاری افسران اور ملازمین سمیت اہم عہدوں پر تعینات شخصیات کو مفت بجلی کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وزارتِ توانائی کی جانب سے گزشتہ پارلیمان میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بجلی کے مفت یونٹس کا استعمال کرنے والوں میں موجودہ اور سابق صدور، وزرائے اعظم، جج، اعلیٰ سول اور فوجی افسران، گورنر اور ڈپٹی گورنرز اسٹیٹ بینک، چیئرمین نیب، واپڈا کے اہلکار اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے ملازمین شامل ہیں۔
ملک کے صدر کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ کو بجلی کے دو ہزار یونٹس استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے ججوں کو دو ہزار اور ہائی کورٹ کے ججوں کو ایک ہزار یونٹ بجلی مفت استعمال کرنے کی قانون اجازت دیتا ہے۔
وفاقی وزرا کو بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے الاؤنس دیا جاتا ہے۔ وائس آف امریکہ کو فوج اور دیگر دفاعی اداروں میں اعلیٰ حکام اور افسران کو مفت بجلی کے یونٹس سے متعلق تفصیلات معلوم نہیں ہوسکی ہیں۔
ایک اور سرکاری رپورٹ کے مطابق مختلف محکموں کے سرکاری ملازمین سالانہ نو ارب روپے مالیت کے 34 کروڑ بجلی کے یونٹس مفت استعمال کرتے ہیں۔
سرکاری دستاویز کے مطابق گریڈ 17 سے 21 کے 15 ہزار سے ملازمین ماہانہ 70 لاکھ یونٹس مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔
گریڈ ایک سے 16 کے ملازمین 33 کروڑ یونٹ ماہانہ مفت بجلی استعمال کررہے ہیں جس کی مجموعی مالیت نو ارب روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔
رواں برس مارچ میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پاور ڈویژن کو گریڈ 16 سے گریڈ 22 تک کے سرکاری افسران کو مفت بجلی کی سہولت بند کرنے کی ہدایت کی تھی۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب پاور ڈویژن حکام کی جانب سے گزشتہ ایک سال میں لوڈشیڈنگ پر رپورٹ پبلک اکاونٹس کمیٹی میں پیش کی گئی تھی۔
کمیٹی کے چیئرمین نور عالم نے واپڈا کو مزید مالی نقصان سے بچانے کے لیے ادارے کو مفت بجلی فراہم کرنے کا سلسلہ بند کرنے اور اس کے بدلے پیسے تنخواہ میں شامل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ان احکامات پر تاحال عمل در آمد نہیں ہوسکا ہے جب کہ ایسی ہی ہدایات ایک سال قبل بھی دی گئی تھیں لیکن یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
وفاقی سیکریٹری پاور ڈویژن نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت ڈسکوز کے افسران کو فراہم کیے جانے والے مفت بجلی کے یونٹ ختم کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ واپڈا کے پرانے ملازمین کے علاوہ کسی بھی محکمے میں بجلی کے بلوں میں کوئی رعایت نہیں دی جا رہی ہے۔
تاہم دوسری جانب تجزیہ کاروں کی رائے مختلف نظر آتی ہے۔ ماہر توانائی ارشد محمود کا کہنا ہے کہ مفت بجلی حاصل کرنے والوں کے لیے یہ سہولت ختم کرنا بہت اچھا فعل ہے اور اگر ایک غریب آدمی بجلی کے بھاری بل ادا کرتا ہے تو یہ عمل سرکاری ملازمین اور بالخصوص اعلیٰ عہدوں پر تعینات لوگوں کو بھی ادا کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس عمل سے توانائی کے شعبے میں ہونے والا بڑا نقصان پورا تو نہیں ہوگا لیکن کم ضرور ہوگا اور اگر ایسا ہو جائے تو شاید اعلیٰ عہدوں پر تعینات افسران اور حکام کو یہ احساس ہو پائے گا کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی اب کس قدر مشکل ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں توانائی کا شعبہ بڑی اصلاحات کے بغیر ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے چوری روکنی ہوگی جب کہ ریکوری بڑھانی ہوگی
ان کے مطابق ملک بھر میں یونیفارم ریٹ ( بجلی کی یکساں قیمت) کے بجائے ان علاقوں میں بجلی کی قیمت کم ہونی چاہیے جو باقاعدگی سے بل ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ علاقے جہاں بجلی کے بلوں کی ریکوری کم ہوتی ہے اس کی سزا ایمان دار کسٹمرز کو نہیں دی جاسکتی اور پاور سیکٹر کے نقصانات کو صارف سے لے کر پورا نہیں کیا جاسکتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کی پیشگی اجازت کے بغیر بجلی کے بلوں میں ٹیکس کم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جو کہ بجلی کے کُل بلوں کا لگ بھگ 31 فی صد سے زائد بنتا ہے۔
ان ٹیکسز کامقصد حکومت کی جانب سے گردشی قرضے کے مسئلے کو حل کرنا بتایا جاتا ہے۔ ملک کا گردشی قرضہ اس وقت 2600 ارب روپے سے زائد ہے۔
حکومت کے ٹیکسوں کے علاوہ بجلی کے بلوں میں بجلی گھروں کے کرائے، بجلی کی ترسیل میں پہنچنے والا نقصان (بجلی کی چوری) اس کے علاوہ ہیں۔ یوں وہ ایندھن جس سے بجلی بنائی جاتی ہے اس کی قیمت 12 فی صد ہی ہے۔
خیال رہے کہ طے شدہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے تحت حکومت نے دسمبر میں بجلی مزید مہنگی کرنی ہے۔
فورم