افغانستان کی جیلوں سے قیدیوں کی رہائی کے بعد شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت داعش کے دوبارہ منظم ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
افغان طالبان نے 15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد ملک کی مختلف جیلوں میں قید دہشت گردوں سمیت تمام قیدیوں کو رہا کر دیا تھا۔ رہائی پانے والوں میں کالعدم شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی کے سربراہ مولوی فقیر محمد بھی شامل ہیں۔
جیل سے رہائی کے بعد ٹی ٹی پی کے اہلکاروں نے مولوی فقیر کا والہانہ استقبال کیا اور انہوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے تمام طالبان کو متحد رہنے پر زور دیا۔
مولوی فقیر سمیت ٹی ٹی پی کے دیگر عسکریت پسندوں کی رہائی پر پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں ٹی ٹی پی کے افغان طالبان کے ساتھ گہرے مراسم رہے ہیں اور افغانستان میں طالبان کے قبضے سے ان کے نظریات کو تقویت مل سکتی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں ہونے والے متعدد بڑے حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے اور گزشتہ ایک سال کے دوران افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔
ایسے میں افغان جیلوں میں قید شدت پسندوں کی رہائی پر پاکستان نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے افغان طالبان کو کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دی جائے۔
بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق افغانستان سے رہا ہونے والے جنگجو غیر قانونی طور پر قبائلی علاقوں کا رخ کر رہے لیکن آزاد ذرائع سے ان اطلاعات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ٹی ٹی پی کے متحرک جنگجوؤں کی تعداد چھ ہزار کے قریب ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے لیے بڑا خطرہ ہے کیوں کہ گزشتہ چند برسوں میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں سرِ فہرست ٹی ٹی پی ہے۔
محمد عامر رانا کے مطابق ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے تعلقات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کے مطابق افغان طالبان نے یقین دلایا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی جب کہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طالبان سے ٹی ٹی پی کے اہم جنگجوؤں کو اسلام آباد کے حوالے کرنے پر بات کی ہے۔
پاکستان کی جانب سے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب بعض ذرائع کے مطابق پاکستان کے مطالبے پر طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے ٹی ٹی پی کے افغان سرزمین کے استعمال ہونے کے حوالے سے ایک تین رکنی کمیشن ترتیب دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق طالبان نے ٹی ٹی پی کی قیادت پر واضح کیا ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ اپنے مسائل خود حل کرے جس کے بعد اس تنظیم کے ارکان خاندان سمیت واپس اپنے ملک منتقل ہو جائیں۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے اب تک اس حوالے سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے کمیشن پہلے بھی بنے ہیں اور ان کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
عامر رانا کے مطابق قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے دوبارہ مضبوط ہونے کے امکانات کم ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔
ان کے بقول رواں برس ملک میں ہونے والے حملے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندوں کا نیٹ ورک پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔
یاد رہے کہ ٹی ٹی پی نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں 26 حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
دفاعی تجزیہ کار اور سیکیورٹی امور کی ماہر ڈاکٹر ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ افغانستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کو ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کو خطرہ سمھجنا چاہیے۔
اُن کے بقول اگر افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں اور افراتفری کی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے تو ایسے میں ٹی ٹی پی اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیمیں یقیناً پاکستان اور اس خطے کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہیں۔
ان کے خیال میں ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کی پالیسیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ٹی ٹی پی بنیادی طور پر ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو کہ کسی نظریے کی بنیاد پر جنگ نہیں لڑ رہی۔
تاہم تجزیہ کار عامر رانا کے مطابق ٹی ٹی پی افغان طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں نے کئی مشکل حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔
افغانستان کے مستقبل کے حالات اور ٹی ٹی پی کی صلاحیتوں کے حوالے سے ڈاکٹر ماریہ سلطان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس بات کا انحصار بین الاقوامی فنڈنگ پر ہے۔
یاد رہے کہ افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے دنیا پر واضح کر دیا تھا کہ ان کی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
پاکستان کی حکومت بھی افغانستان سے یہی مطالبہ دہراتی رہی ہے۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان کے مطابق وہ سمجھتی ہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اپنی سر زمین پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
ان کے مطابق اس وقت افغانستان کے حالات کنٹرول میں ہیں۔ تاہم مزاحمت کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ حالات کی خرابی کا براہِ راست فائدہ افغانستان میں موجود عالمی دہشت گرد تنظیموں کو ہو گا۔