منگل کے روز امریکی قانون سازوں نے تیل کی کمپنیوں کے اعلیٰ ترین افسران سے پانچ گھنٹے تک سخت باز پرس کی ۔ ایوانِ نمائندگان کی توانائی اور تجارت کی کمیٹی کی سماعت میں بیشتر سوالات اس صنعت کے حفاظتی اقدامات کے بار ے میں تھے ۔
ایوانِ نمائندگان میں ریاست میسا چوسٹس کے ڈیموکریٹک رکن ایڈورڈ مرکی نے اس سماعت کی صدارت کی اور اسے تاریخی واقعہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا’’یہ ایک تاریخی سماعت تھی، لیکن یہ وقت بھی تاریخی ہے ۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی ماحولیاتی تباہی ہے ۔ امریکی عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ حادثہ کیوں ہوا، اس سے نمٹنے کے اقدامات اتنے ناکافی کیوں ہیں اور یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ ایسا پھر کبھی نہ ہو، ہمیں کیا کرنا ہوگا۔‘‘
کانگریس مین مرکی ، ریاست کیلے فورنیا کے ڈیموکریٹک نمائندے ہنری ویکس مین اور پینل میں شامل دوسرے سینیئر ڈیموکریٹک ارکان نے تیل کی پانچوں کمپنیوں کے ان منصوبوں پر توجہ مرکوز کی جو کسی بڑی تباہی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان منصوبوں کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ کسی بھی کمپنی نےبڑے پیمانے پر تیل پھیل جانے کے حادثے سے نمٹنے کے لیے بی پی کمپنی سے بہتر تیاری نہیں کی ہے ۔
مرکی نے کہا کہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے تین منصوبوں میں جنگلی حیات کے جس ماہر کا فون نمبر لکھا ہوا ہے اس کا 2005 میں انتقال ہو چکا ہے ۔ بہت سے علاقائی منصوبوں میں لکھا ہوا ہے کہ سمندر میں تیل پھیلنے سے والرس اور سی لائین نامی جانور متاثر ہو سکتےہیں جب کہ خلیجِ میکسیکو میں ان جانوروں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔
جب ایکسون موبل کے چیف ایگزیکٹو افسر ریکس ٹِلرسن سے پوچھا گیا کہ تباہی سے نمٹنے کے منصوبوں میں ٹھوس اقدامات اتنے کم کیوں ہیں تو انھوں نے تسلیم کیا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ کوئی بڑا دھماکا نہ ہونے دیا جائے کیوں کہ اگر ایک بار ایسا ہو گیا تو پھر ہم بڑی حد تک بے بس ہوتے ہیں۔
ٹِلرسن نے یہ ضرور کہا کہ ان کے خیال میں ڈیپ واٹر ہورائزن آئل رِگ کے المیے سے بچا جا سکتاتھا۔ اس دھماکے میں 11 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ انھوں نے کہا کہ امکان یہی ہے کہ بی پی نے تیل کے اس کنوئیں کا جو ڈزائن تیار کیا تھا وہ ناقص تھا۔ ہم اس طرح اس کنوئیں کو نہ کھودتے جس طرح انھوں نے کھودا۔
تیل کی دوسری کمپنیوں شیل،شیوران اورکونوکو فلپس نے بھی اتفاق کیا کہ وہ بھی اس کنوئیں کو مختلف طریقے سے ڈزائن کرتے۔ٹِلر سن نے کہا کہ ڈیپ واٹر ہورائزن کا حادثہ تیل کی صنعت کے عام معیار سے بالکل مختلف ہے اور یہ پتہ چلایا جانا چاہیئے کہ اس کنوئیں میں کیا مختلف بات ہوئی۔آخر خلیج میکسیکو میں ساحل کے نزدیک دوسرے 14 ہزار تیل کے کنوئیں بالکل ٹھیک کام کر رہے ہیں۔
کمیٹی کے چیئر مین مرکی نےبی پی امریکہ کے چیئر مین اور صدرلامر مکے کی خوب خبر لی کہ انھوں نے خلیج کے پانی میں ملنے والے تیل کی مقدار کا جو اندازہ لگایا تھا وہ کتنا کم تھا۔ انھوں نے مِکے سے کہا کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر معافی مانگیں۔
مرکی نے کہا’’جس روز آپ معافی مانگنے پر تیار ہو جائیں گے، اسی دن سے ہم ایسے منصوبے تیار کرنا شروع کر دیں گے جن سے یہ بات یقینی ہو جائے کہ اس قسم کا حادثہ پھرکبھی نہ ہو۔یہ تیل بی پی نے بہایا لیکن سمندر امریکہ کا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہ بات تسلیم کریں کہ آپ جانتے تھے یا آپ کو شروع میں ہی معلوم ہو جانا چاہیئے تھا کہ بہنے والے تیل کی مقدار ایک ہزار یا پانچ ہزار بیرل سے کہیں زیادہ تھی۔‘‘
بی پی امریکہ کے چیئر مین مِکے نے کہا کہ رِگ میں دھماکے سے جو جانی اور مالی نقصان ہوا ہے، اس پر انہیں افسوس ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بی پی لوگوں کے نقصان کی ادائیگی کے لیے ایک الگ اکاؤنٹ میں پیسے رکھنے پر تیار ہو جائے گی تو انھوں نے جواب دیا’’میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ایک الگ فنڈ قائم کیا جائے گا یا نہیں۔ہم نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ کمپنی اپنے وعدوں کا پاس کرے گی۔ ہماری کمپنی کی مالی حالت بہت مضبوط ہے اور ہم نے جو کچھ کہا ہے اسے پورا کریں گے۔‘‘
پینل کے بعض ریپبلیکن ارکان نے بی پی اور تیل کی کمپنیوں کے افسران کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔ریاست فلوریڈا کے ریپبلیکن کانگریس مین کلف سٹیئرنز نے بی پی امریکہ کے چیئر مین مِکے سے فوری طور پر استعفیٰ دینے کے لیے کہا۔
لیکن کئی ریپبلیکن قانون سازوں نے تیل کی کمپنیوں کے ایگزیکٹوز کے اس مطالبے کی تائید کی کہ تیل کے پھیلنے کے بعد، صدر اوباما نے گہرے سمندر میں تیل کی ڈرلنگ پر چھ مہینے کی جو پابندی لگائی ہے وہ ختم کر دی جائے۔بعض ریپبلیکن قانون سازوں نے الزام لگایا کہ ڈیموکریٹس ،تیل کے پھیلنے کے بحران کو توانائی اور آب و ہوا کے بارے میں اپنے قانون سازی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔