پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادھو کو قونصلر رسائی دیے جانے کے بعد بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا بیان سامنے آیا ہے۔ ترجمان رویش کمار نے بتایا ہے کہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے افسر نے کلبھوشن سے آج ملاقات کی ہے۔
رویش کمار کے بقول ’یہ ملاقات عالمی عدالت کے 17 جولائی کے فیصلے کے تحت کرائی گئی ہے جس میں پاکستان کو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا تھا اور عالمی عدالتِ نے حکم دیا تھا کہ بھارتی افسروں کو کلبھوشن یادھو تک قونصلر رسائی دی جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم مفصّل رپورٹ کے منتظر ہیں البتہ یہ واضح ہے کہ یادھو شدید دباؤ میں تھے۔ شدید دباؤ کے باعث وہ پاکستان کے عائد کردہ جھوٹے الزامات کو بھی قبول کر رہے ہیں۔ ہم تفصیلی رپورٹ آنے کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ وزارتِ خارجہ نے کلبھوشن کی والدہ سے بات کر کے انہیں ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کر دیا ہے۔ حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی کہ کلبھوشن کو جلد انصاف ملے اور وہ بحفاظت بھارت واپس آجائیں۔
دوسری جانب پاکستان کے دفترِ خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ کلبھوشن یادھو کو آج عالمی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں قونصلر رسائی دی گئی ہے۔ بھارت کے ڈپٹی کمشنر گورواہلو والیانے کلبھوشن یادھو سے ملاقات کی ہے جو تقریباً دو گھنٹوں تک جاری رہی۔
دفترِ خارجہ کے مطابق ملاقات میں پاکستانی حکام بھی موجود تھے اور یہ ملاقات بلا تعطّل اور کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہی۔ ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ بھی کیا گیا ہے جس سے متعلق بھارتی حکام کو پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا۔
دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق ملاقات میں گفتگو کی زبان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔
یاد رہے کہ پاکستان نے جاسوسی کے الزام میں قید بھارتی شہری کلبھوشن یادھو کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق آج دوپہر 12 بجے قونصلر رسائی دی تھی۔
بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر گورو اہلووالیا سے کلبھوش یادھو کی ملاقات نامعلوم مقام پر کروائی گئی جسے سب جیل کا درجہ دیا گیا تھا۔
دو گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے دوران پاکستان کی جانب سے بھارتی امور کی ڈائریکٹر فریحہ بگٹی بھی موجود تھیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز ذرائع ابلاغ سے گفتگو کے دوران کلبھوشن یادھو کو قونصلر رسائی دینے کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ سنہ 2017 میں کلبھوشن یادھو کی ان کی والدہ اور اہلیہ کے ساتھ ملاقات دفترخارجہ میں کیے گئے خصوصی انتظامات کے تحت کروائی گئی تھی۔
اس ملاقات کے دوران کلبھوشن یادھو شیشے کے پار موجود تھے جب کہ اس عمل کی پوری ویڈیو بھی بنائی گئی تھی۔ لیکن اس مرتبہ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو ملاقات کے لیے دفتر خارجہ سے نامعلوم مقام کی جانب لے جایا گیا۔
ملاقات کے دوران سیکورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
پاکستان نے تین مارچ 2016 کو پاکستان اور ایران کی سرحد کے قریب بلوچستان سے کلبھوشن یادھو کو گرفتار کیا تھا۔ پاکستان نے الزام عائد کیا تھا کہ کلبھوشن یادھو بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر اور بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کرتا ہے۔
پاکستانی حکام نے یہ بھی کہا تھا کہ کلبھوشن یادھو کے جعلی پاسپورٹ پر اس کا نام حسین مبارک درج ہے۔ اس حوالے سے ان کا اعترافی ویڈیو بیان بھی جاری کیا گیا تھا۔
اعترافی بیان میں کلبھوش یادھو نے کہا تھا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایما پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور ساحلی شہر کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔
بھارت نے پاکستان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ کلبھوشن یادھو ریٹائرڈ نیوی افسر ہے اور ایران میں قیمتی پتھروں کا کاروبار کرتا ہے۔
پاکستان میں اس پر مقدمہ چلایا گیا اور 10 اپریل 2017 کو فوج کے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے اسے سزائے موت سنا دی۔
بھارت نے انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں اٹھایا تھا جس نے گزشتہ ماہ کلبھوشن یادھو کو قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ کیا۔