وزیرِاعظم عمران خان کی طرف سے ملک میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر ایک متنازع بیان پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ بعض حلقے اس بیان پر وزیرِ اعظم سے معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ کچھ حلقوں کی جانب سے اس کی حمایت کی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے چار اپریل کو ٹیلی ویژن پر سوال و جواب کے براہِ راست سیشن کے دوران ایک خاتون کی جانب سے بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں فحاشی اور خواتین کے بولڈ لباس کو واقعات میں اضافے کی ایک وجہ قرار دیا تھا۔
پاکستان میں انسانی اور خواتین کے حقوق سے منسلک تنظیموں نے وزیرِ اعظم کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اس بیان کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
البتہ، وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے 99.99 فی صد عوام عمران خان کے بیان سے متفق ہیں اور محض چند سو لوگ اس بیان پر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس حوالے سے عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کا بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "جس عمران خان کو میں جانتی ہوں وہ خواتین پر نہیں مرد کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے کے قائل ہیں۔"
'وزیرِ اعظم سے ایسے بیان کی توقع نہیں تھی'
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ ایسا بیان پاکستان میں مردوں کی اسی سوچ کو ظاہر کرتا ہے جس کے مطابق زیادہ تر ریپ کا شکار ہونے والوں کو ہی موردِ الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔
زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ وزیرِاعظم کے بیان کی مختلف تنطیمیں مذمت کر رہی ہیں۔ یہ بیان عورتوں کے خلاف ہے۔ اُن کے بقول ہمیں امید نہیں تھی کہ وزیرِاعظم ایسے خیالات کا اظہار کریں گے۔
زہرہ یوسف نے کہا کہ "فحاشی کا الزام لگا کر خواتین پر پابندیاں لگانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن میرے خیال میں کسی پر بھی لباس کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ لہذٰا وزیرِ اعظم کو یہ بیان فوری طور پر واپس لینا چاہیے۔"
'عمران خان نے عورت کو قصوروار نہیں کہا'
حافظ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِاعظم نے ریپ واقعات کا ایک سبب فحاشی و عریانی کو قرار دیا ہے۔
اُن کے بقول وزیرِاعظم نے مرد یا عورت کا نام نہیں لیا۔ فحاشی اور عریانی کی وجہ سے کسی کے بھی جذبات مشتعل ہو سکتے ہیں اور یہ ایسی بات ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے مزید کہا تھا کہ کئی سال قبل برطانیہ بھی ایسا نہیں تھا مگر جب وہاں بھی خواتین نے عریانیت کو فروغ دیا اور مختصر لباس پہننے لگیں تو ریپ واقعات بڑھنے لگے اور پھر فحش فلموں نے باقی کسر بھی پوری کی۔
وزیرِ اعظم کے بقول معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھے گی اس کے اتنے ہی اثرات ہوں گے اور ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل حارث خلیق کہتے ہیں کہ یہ صرف ایک غیر ذمے دارانہ بیان نہیں بلکہ ایک خاص طرح کی سوچ ہے جو مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم کے بیان پر سرکاری وضاحتیں اطمینان بخش نہیں کیوں کہ وزیرِاعظم نے خواتین کو موردِ الزام ٹھیرایا ہے۔
حارث خلیق کے بقول "میرے نزدیک ریپ کے معاملے کا تعلق لباس سے نہیں ہے بلکہ طاقت اور تشدد کا معاملہ ہے، اس کے ذمے داران کو کوئی گنجائش نہیں دینی چاہیے کہ وہ لباس کی وجہ سے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں۔
سوشل میڈیا پر ردِعمل
سوشل میڈیا پر بھی چند روز سے عمران خان کے اس بیان پر بحث کا سلسلہ جاری ہے۔
تجزیہ کار ریما عمر نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں سیدھی بات کرنی چاہیے، وزیرِاعظم کا ریپ سے متعلق بیان جس میں وہ اس کی وجہ فحاشی کو قرار دے رہے ہیں لاعلمی پر مبنی اور قابل مذمت ہے۔"
اداکار عثمان خالد بٹ نے ٹوئٹ کی کہ وزیرِاعظم کے بیان پر شور اس لیے اُٹھا کیوں کہ اس میں یہ تاثر مل رہا ہے کہ شاید سارا قصور ریپ کا شکار ہونے والوں کا ہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کے عذر پیش کرنے کے بجائے ہمیں اپنی پولیس اور سڑکوں پر سیکیورٹی کا نظام مزید بہتر بنانا چاہیے۔
البتہ، موسیقار روحیل حیات نے اپنی ٹوئٹ میں عمران خان کے بیان کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے محض اتنا کہا ہے کہ حیا کے دائرے سے باہر جا کر ہم مصیبت کو دعوت دے رہے ہیں، کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے؟
خیال رہے کہ اس معاملے پر بدھ کو وزیرِ اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے ایک وضاحتی بیان میں کہا گیا تھا کہ عمران خان کے بیان کو غلط مطلب لیا جا رہا ہے۔
ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیرِ اعظم کے بیان کے ایک حصے کو مسخ کر کے پیش کر گے اسے ایسے معنی دیے گئے جو ہرگز وزیرِ اعظم کے کہنے کا مطلب نہیں تھا۔