بھارت میں ریاست گجرات کی حکومت نے بلقیس بانو اجتماعی زیادتی اور قتل کیس میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے تمام 11 قیدیوں کو معافی دے دی ہے۔ ان قیدیوں کی جیل سے رہائی کے فیصلے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، قانونی ماہرین، سول سوسائٹی اور مسلم تنظیموں نے اسے انصاف کا مذاق قرار دیا ہے البتہ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے اس معاملے میں ضابطے کی پابندی کی ہے۔
کانگریس، عام آدمی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، ترنمول کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی وغیرہ نے گجرات کی بی جے پی حکومت کے اس فیصلے کو انصاف کے منافی قرار دیا ہے جب کہ حکمران جماعت بی جے پی کی جانب سے اس معاملے پر تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
گجرات میں فسادات کے دوران تین مارچ 2002 کو جب 20 سالہ بلقیس بانو اپنے تحفظ کی خاطر داہود ضلع کے نمکھیڑا تعلقہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہی تھیں تو ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔ اس وقت وہ پانچ ماہ کے حمل سے تھیں۔ حملہ آوروں نے ان کی تین سال کی بیٹی صالحہ سمیت 14 افراد کو قتل بھی کر دیا تھا۔
کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ پانچ ماہ کی حاملہ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور ان کی تین سال کی بچی کو قتل کرنے والوں کو ’آزادی کے امرت مہوتسو‘ کے درمیان رہا کیا گیا۔ خواتین کی طاقت کی جھوٹی باتیں کرنے والے کیا پیغام دے رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم پورا ملک آپ کے قول و فعل میں فرق کو دیکھ رہا ہے۔
کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے بھی نیوز کانفرنس میں وزیرِ اعظم کے بیان کے حوالے سے قیدیوں کی رہائی کی مذمت کی اور کہا کہ ان قیدیوں کا استقبال کیا گیا۔ کیا یہ امرت مہوتسو ہے۔
یاد رہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے یومِ آزادی پر لال قلعے کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے خواتین سے نفرت کے خاتمے اور ان کے احترام پر زور دیا تھا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے گجرات اسمبلی انتخابات سے قبل قیدیوں کی رہائی کو اکثریتی طبقے کو خوش کرنے کا قدم قرار دیا۔ ان کے بقول انتخابات میں ان کے ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔
یاد رہے کہ رواں برس کے آخرمیں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔
انہوں نے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیرِ اعظم مسلم خواتین کے ساتھ ہیں، تو بی جے پی کو حکم دیں کہ فیصلہ بدلا جائے اور قیدیوں کو دوبارہ جیل میں ڈالا جائے۔
بلقیس بانو کے شوہر یعقوب رسول نے نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ سے گفتگو میں کہا کہ قیدیوں کی رہائی سے وہ لوگ خوف و دہشت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
ان کے مطابق پہلے بھی ہم لوگ خوف کے عالم میں جی رہے تھے، مگر اب خوف بڑھ گیا ہے۔ بلقیس بانو نے بھی خوف و ہراس میں مبتلا ہونے کی بات کہی۔
قانونی ماہرین بھی اس فیصلے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ بلقیس کی وکیل شوبھا گپتا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے فیصلے پر اظہارِ حیرت کیا اور کہا کہ بلقیس نے ایک طویل قانونی لڑائی لڑی تھی مگر اب مجرموں کو رہا کرکے حکومت نے انصاف کے منافی قدم اٹھایا ہے۔
سپریم کورٹ کی سینئر وکیل ورندا گروور کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 435 کے تحت قیدیوں کو معاف کرنے کا اختیار ریاستی حکومت کو ہے لیکن اگر کسی معاملے کی تحقیقات سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) نے کی تو اس معاملے میں ریاستی حکومت مرکزی حکومت سے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ سی بی آئی سینٹرل ایکٹ کے تحت کارروائی کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلقیس بانو کیس کی تحقیقات چوں کہ سی بی آئی نے کی تھی اس لیے معافی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ مرکزی حکومت کر سکتی ہے ریاستی حکومت نہیں۔ مزید برآں یہ کہ مرکزی حکومت نے یہ پالیسی بنا رکھی ہے کہ ریپ کے کسی بھی سزا یافتہ قیدی کو معافی نہیں دی جائے گی۔
قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک طرف معافی کے ضابطے کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے جب کہ دوسری طرف یہی ضابطہ دوسرے قیدیوں پر نافذ نہیں کیا جاتا۔ ان کے مطابق قانون سب کے لیے برابر ہے۔ کسی کو اس سے فائدہ پہنچانا اور کسی کو محروم کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
متعدد مسلم تنظیموں نے بھی گجرات حکومت کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ تقریباً دو درجن مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسے انتہائی افسوسناک اور خواتین کے خلاف جرائم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا قدم بتایا۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف وزیرِ اعظم یوم آزادی پر اپنے خطاب میں خواتین کے احترام کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف گجرات کی بی جے پی حکومت جنسی زیادتی اور قتل کے سزایافتہ مجرموں کو رہا کرکے انہیں یومِ آزادی کا تحفہ دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ذکیہ جعفری کی رٹ کو خارج کر دیا جس میں گجرات فسادات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کلین چٹ دینے والی ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اس کے بعد انسانی حقوق کی سینئر کارکن تیستا سیتلواڈ اور گجرات کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سری کمار کو گرفتار کیا گیا اور اب 11 مجرموں کو رہا کر دیا گیا۔ انہوں نے حکومت اور عدالت سے اپیل کی کہ رہا کیے جانے والوں کو فوراً گرفتار کیا جائے۔
ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ضابطے کے مطابق کارروائی کی ہے۔
ریاست کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ راج کمار نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سزایافتہ افراد نے مجموعی طور پر 14 سال جیل میں گزار لیے ہیں۔ قانون کے مطابق عمر قید کا مطلب کم از کم 14 سال کی جیل ہے۔ اس کے بعد مجرم معافی کی درخواست کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جیل کی مشاورتی کمیٹی اور قانونی ادارے کی سفارش اور عمر، جرم کی نوعیت اور قیدیوں کے برتاؤ کو دیکھتے ہوئے انہیں رہا کیا گیا۔ خیال رہے کہ قیدیوں میں سے ایک نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی کہ اس نے 14 سال کی قید کاٹ لی ہے لہٰذا اسے رہا کیا جائے۔ اس پر سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت سے کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر غور کرے۔ حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے رہائی کی سفارش کی۔ اس کے بعد دیگر تمام قیدیوں کو پیر کے روز رہا کر دیا گیا۔
رہا کیے گئے قیدیوں میں جسونت نائی، گووند نائی، شیلیش بھٹ، رادھے شیام شاہ، بپن چندر جوشی، کیسر بھائی اوہانیا، پردیپ موردھیا، بکا بھائی اوہانیا، راجیو بھائی سونی، متیش بھٹ اور رمیش چندن شامل ہیں۔
پیر کو جیل سے رہائی کے بعد مقامی ہندوؤں نے ان کا خیرمقدم کیا۔ ہندو خواتین نے ان کی پیشانی پر ٹیکہ لگا کر انہیں مبارک باد دی جب کہ بدھ کو احمد آباد میں ہندو شدت پسند تنظیم وشو ہندو پریشد کے دفتر میں ہار پہننا کر ان کا استقبال کیا گیا۔
بلقیس بانو نے گجرات کی مقامی عدالت میں ملزموں کے خلاف کیس دائر کیا تھا البتہ جب ان کو دھمکیاں ملنے لگیں تو انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور دوسری ریاست میں عدالتی کارروائی چلانے کی اپیل کی۔
سپریم کورٹ کے حکم پر یہ معاملہ مہاراشٹرا منتقل کیا گیا۔ جہاں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 21 جنوری 2008 کو 13ملزموں کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ مئی 2017 میں بامبے ہائی کورٹ نے اس سزا کوبحال رکھا۔
سپریم کورٹ نے 2019 میں ریاستی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ بلقیس کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری ملازمت اور رہنے کے لیے گھر دے۔ گجرات فسادات کے کسی معاملے میں یہ واحد ایسا فیصلہ تھا۔
بلقیس بانو کی وکیل شوبھا گپتا نے ریاستی حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے متعدد فیصلوں میں، یہاں تک کہ اس کے آئینی بینچز نے بھی کہا ہے کہ قیدیوں کو معافی ان کے حقوق میں شامل نہیں ہے۔ کوئی بھی قیدی مختلف امتحانوں سے گزرنے کے بعد ہی یہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے پر صدمے کا اظہار کیا۔