بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں آنکھ کے قرنیے کی پیوندکاری کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے اور ایک سرکاری اسپتال کے ڈاکٹروں نے شمالی امریکہ کے ڈاکٹروں کی طرف سے فراہم کیے گئے 15 قرنیے مختلف مریضوں کو لگا دیے ہیں۔
'ہیلپرز آئی اسپتال' کے سینئر آئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر چاکر خان بلوچ کا کہنا ہے کہ ان کے اسپتال میں کافی عرصے سے آنکھوں کے مختلف امراض کا علاج کیا جا رہا تھا لیکن اب پہلی مرتبہ قرنیے کی پیوند کاری کی گئی ہے جس کی بدولت اب ایک نابینا شخص بھی اس دنیا کی رنگینیوں کو دیگر لوگوں کی طرح دیکھ سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر چاکر بلوچ نے حال ہی میں کیے جانے والے ایک جائزے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ خشک سالی اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث صوبے کے تمام علاقوں میں آنکھ کی بیماریاں عام ہیں جن میں خارش، آنکھوں سے آنسو آنا، آنکھوں میں کچرے کا جمع ہو جانا، وائرس کے باعث بچوں کی آنکھوں کا خراب ہونا اور دیگر بیماریاں شامل ہیں۔
لیکن ان کے بقول ان میں دو طرح کی خطرناک بیماریاں - موتیے اور کالا پانی ایسی ابھی ہیں جن کا صوبے میں آنکھوں کے امراض میں مبتلا کل افراد میں سے 15 فی صد نشانہ بنتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 10 فی صد افراد موتیے کا شکار ہیں جب کہ دیگر پانچ فی صد لوگوں کی آنکھوں میں کالا پانی ہے جو بر وقت علاج نہ ہونے کی صورت میں بینائی چھین سکتا ہے۔
ڈاکٹر چاکر بلوچ کے مطابق کچرا چننے والے بچوں کی آنکھوں کو لگنے والی مختلف بیماریاں اور آری یا دیگر مشینوں پر کام کرنے والے کاریگروں کی آنکھوں کو پہنچنے والے نقصانات کے علاوہ بعض افراد حادثات میں بھی اپنی آنکھ ضائع کر دیتے ہیں اور ایسے تمام مسائل اور بیماریوں کا شکار مریضوں کا ان کے اسپتال میں علاج کیا جاتا ہے۔
لیکن اب شمالی امریکہ کے ڈاکٹروں کی ایک تنظیم کی مدد سے اس اسپتال میں بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قرنیے کی پیوند کاری کے کامیاب آپریشن کیے گئے ہیں اور نابینا ہو جانے والے افراد کی آنکھوں کی پیوند کاری کر کے اُن کی بینائی بحال کردی گئی ہے۔
ڈاکٹر چاکر بلوچ نے بتایا کہ شمالی امریکہ کے ڈاکٹروں کی تنظیم ہر دو ماہ بعد پانچ قرنیے بھیجتی ہے جو وہ ضرورت مند مریضوں کو لگا دیتے ہیں۔ ابھی تک 15 مریضوں کو یہ قرنیے لگائے گئے ہیں اور یہ تمام آپریشن کامیاب رہے۔
انہوں نے بتایا کہ دالبندین کے ایک ہی خاندان کی پانچ خواتین کو قرنیے لگائے گئے اور کامیاب آپریشن کے نتیجے میں بینائی واپس آنے کے بعد اُن کی خوشی دیدنی تھی۔
ڈاکٹر چاکر بلوچ کے مطابق موت کے بعد اگر کسی انسان کا قرنیہ کسی دوسرے نابینا شخص کے کام آئے تو یہ عمر بھر صدقۂ جاریہ ہے۔
انہوں نے علمائے کرام مشائخِِ عظام سے اپیل کی کہ وہ اس سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اور لوگوں کو ممتاز کارکن عبدالستار ایدھی کی طرح آنکھوں کا عطیہ دینے کی تلقین کریں تاکہ پاکستان سے نابینا پن ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکے۔