نیویارک کے علاقے لانگ آئی لینڈ میں موسم معتدل ہے، ہلکی دھوپ نکلی ہوئی ہے اور درجہ حرارت 17 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہے۔
مظفر زیدی کا 12 افراد پر مشتمل خاندان عراق میں زیارت پر جانے کے لیے تیار ہے۔ پاسپورٹ، ٹکٹ اور دیگر ضروری دستاویزات ساتھ رکھ لی ہیں۔ خاندان کے ایک قریبی دوست اور ٹریول ایجنٹ امان سلمان انہیں ایئرپورٹ پہنچانے کے لیے اپنی گاڑی لے کر آ چکے ہیں۔
مگر ایک مسئلہ ہے۔ کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کے کارڈ تو سب کے پاس ہیں لیکن سفر کے لیے لازمی کرونا ٹیسٹ کی رپورٹ ابھی تک نہیں ملی۔
فلائٹ میں محض چار گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔ اور یہ ٹیسٹ انہوں نے تقریباً 50 گھنٹے قبل کرایا تھا۔ اگر بروقت رپورٹ نہ ملی تو وہ اپنی منزل کی جانب روانہ نہیں ہو سکیں گے۔
خوش قسمتی سے ایئرپورٹ پہنچنے تک ٹیسٹ کے منفی نتائج زیدی خاندان کو مل گئے اور وہ جہاز پر سوار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ صرف ایک خاندان کی کہانی نہیں ہے۔ بیرون ملک فضائی سفر کرنے والے اکثر افراد کو ان دنوں کرونا ٹیسٹنگ کا رزلٹ بروقت حاصل کرنے میں مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں اومیکرون کے باعث کرونا وائرس کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں جس سے کرونا ٹیسٹنگ کے نظام پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
امریکہ میں تین جنوری کو ایک ہی دن میں دس لاکھ سے زائد کیسز سامنے آئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اگلے روز پونے نو لاکھ کیسز کی تصدیق ہوئی۔
نیویارک ہی کے معاذ صدیقی نے پاکستان جانے کا منصوبہ کئی ماہ قبل بنایا تھا۔ اپنا کرونا ٹیسٹ منفی آنے کے باوجود وہ مقررہ پرواز پر سوار نہ ہو سکے کیوں کہ ٹیسٹ کی رپورٹ تاخیر سے ملی۔
ٹریول ایجنٹ امان سلمان بتاتے ہیں کہ انہیں ہر روز کئی ایسے صارفین کے فون آتے ہیں جنہیں تمام تر تیاریوں کے باجود پی سی آر ٹیسٹ رپورٹ بروقت نہ ملنے کی وجہ سے اپنی فلائٹ منسوخ کرانا پڑتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کرونا ٹیسٹ کی رپورٹ میں تاخیر نے بین الاقوامی سفر کرنے والوں کے لیے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
امان سلمان بتاتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ویکسین کی خوراکیں مکمل کرنے والوں کو شاید کسی اضافی ٹیسٹ کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم درحقیقت ہر ملک نے اپنے تقاضوں کے مطابق کرونا سے بچاؤ کے اپنے ایس او پیز ترتیب دے رکھے ہیں۔
مگر ایس او پیز میں یہی فرق ایک مسئلہ بھی بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر عراق جانے والوں کے لیے سفر شروع کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر پی سی آر ٹیسٹ کرانا ضروری ہے جب کہ پاکستان نے 48 گھنٹوں کی شرط نافذ کی ہے۔
امریکہ سمیت کئی ممالک سفر شروع کرنے سے صرف 24 گھنٹوں پہلے کرونا منفی ٹیسٹ کا تقاضا کر رہے ہیں۔
امریکہ کے کئی شہروں میں ان دنوں کرونا ٹیسٹنگ کی جگہوں پر لمبی قطاریں نظر آ رہی ہیں۔ اور ٹیسٹ کے نتائج ملنے میں چار پانچ دن تک لگ رہے ہیں۔
دوسری جانب ایسی پرائیوٹ لیبارٹریز بھی ہیں جو پی سی آر ٹیسٹ کی رپورٹ ایک گھنٹے میں دے دیتی ہیں، مگر اس کے لیے 200 سے 300 ڈالر دینے پڑتے ہیں، جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
نیویارک کے ہیلتھ گروپ 'بیسٹ میڈل کیئر' کے ڈاکٹر مشاہد فاروقی کرونا کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لوگ نہ صرف بیرونِ ملک سفر کے لیے ٹیسٹ کروا رہے ہیں بلکہ بیماری کی علامات محسوس کر کے احتیاطاً ٹیسٹ کروا رہے ہیں تاکہ بروقت احتیاطی تدابیر کر سکیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اومیکرون ویریئنٹ سامنے آنے کے بعد دسمبر میں نئی حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت نئے سال میں پچاس کروڑ ٹیسٹنگ کٹس امریکی خاندانوں کو مفت مہیا کی جائیں گی۔
اب تک گھریلو سطح پر قابلِ استعمال ان ٹیسنٹگ کٹس کی کمی اور ان کی قیمت امریکہ میں ایک مسئلہ رہی ہے۔
تاہم یہ کٹس مل بھی جائیں تب بھی مسافروں کو ان سے زیادہ فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ ایئر لائنز ان کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتیں۔ سفر سے قبل پی سی آر ٹیسٹ کرانا ہی لازمی ہے جو صرف لیبارٹریاں کر سکتی ہیں۔