رسائی کے لنکس

کرونا وائرس: اپنا علاج خود کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے


ان دنوں کرونا وائرس کی وجہ سے گھروں میں بند ہوجانے والے لوگوں کے لیے ہسپتال جانے یا میڈیکل اسٹورز پر جا کر دوائیاں خریدنے کی سہولت محدود ہو گئی ہے، ایسے میں بہت سے لوگ خود میں کرونا جیسی کسی بھی علامت کو پا کر ڈاکٹر سے مشورے کے بغیر ازخود ہی ایسی ادویات کا استعمال کر رہے ہیں جو انہیں گھر پر آسانی سے دستیاب ہیں۔ یا جن کے بارے میں انہیں سوشل میڈیا کے کسی غیر مستند ذریعے سے یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ دوا ان علامات کے لیے کارگر ہے۔

ایسی ہی ایک دوا کلورو کوئین ہے، جس کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ کرونا وائرس کے علاج کے لئے مفید ہے۔ لیکن، سوال یہ ہے کہ کیا ان ادویات کو ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال کیا جانا چاہیے؟ اس بارے میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کراچی کے ہیڈ آف مالی کیولر پیتھالوجی پروفیسر ڈاکٹر سعید خان نے ٹیلی فون پر ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایسا کرنا بالکل مناسب نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب تک ریسرچ کے مطابق، کوئی ایسی مستند دوا حتمی طور پر تیار نہیں ہوئی جو کرونا وائرس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے موثر اور مستند قرار دی گئی ہو۔ تاہم، سائنسدان ور ڈاکٹر کرونا وائرس کی علامات سے ملتی جلتی علامات کے لیے کارگر ہونے والی پہلے سے موجود مختلف ادویات کو ملا جلا کر اس کے علاج کے لیے کچھ تجربات کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر سعید خان نے بتایا کہ ایک تجربہ جو حال ہی میں چین میں کیا گیا وہ سارز کی وبا کے دوران کارگر ہونے والی ایک دوا ریمڈسیویر تھی جسے دوسری ادویات کے ساتھ ملا کر استعمال کرنے سے کچھ فائدے ظاہر ہوئے۔ اسی طرح ملیریا کے علاج کے لیے مفید دوا کلوروکوئین کو دوسری ادویات کے ساتھ ملا کر دینا بھی کچھ کارگر رہا۔ چین میں کلورو کوئین اور ازتھرومائیسن کو ملا کر مریضوں کو دینے کا کامیاب تجربہ ہوا۔

ڈاکٹر سعید نے کہا کہ کلوروکوئین کے بارے میں یہ مشہور ہوگیا ہے کہ یہ کرونا کے علاج کے لیے مفید ہے اس لیے کچھ لوگوں نے خود سے ہی اس کا زیادہ یا کم استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، جو ایک بہت نقصان دہ صورتحال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دوا ایک حد تک تو مفید ہوتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اس کا استعمال بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ڈاکٹر ہی مریض کو دیکھ کر اگر محسوس کرے تو اس کے لیے یہ دوا اور اس کی مقدار تجویز کرے۔

ہیڈ آف مالی کیولر پیتھالوجی کے پروفیسر نے بتایا کہ کرونا جیسی علامات کے لیے عام لوگ ایک اور دوا جو خود سے ہی استعمال کر رہے ہیں وہ ہے آئی بروفین۔

انہوں نے بتایا کہ اس دوا کے بارے میں ایک فرانسیسی ریسرچر نے کہا ہے کہ یہ دوا وائرس میں مبتلا ہو جانےکے بعد علامات کو مزید شدید کر سکتی ہے۔ لیکن یہ کہ اس پر مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر سعید نے کہا کہ موجودہ حالات میں بہتر یہ ہی ہوگا کہ اگر کسی شخص میں کرونا کی تشخیص ہو چکی ہو وہ یہ دوا استعمال نہ کرے، بلکہ اس سلسلے کی دوسری ادویات کو استعمال کیا جائے مگر وہ بھی ڈاکٹر کے مشورے سے۔

ڈاکٹر سعید کا کہنا تھا کہ سائنسدان کرونا وائرس کے علاج کی تلاش میں مختلف ٹکنالوجیز اور مختلف طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک پلازما تھیراپی ہے۔ اس طریقے میں اس وائرس سے صحت یاب ہو جانے والے مریضوں کے خون کے نمونے لے کر ان میں موجود اینٹی باڈیز کو ان نئے مریضوں میں داخل کیا گیا جن کی حالت بہت خراب تھی تو ان نئے مریضوں کا دفاعی سسٹم بہتر ہوا اور وہ صحتیاب ہوئے۔

بہرطور، ڈاکٹر سعید نے کہا کہ یہ سب تجربات ابھی جاری ہیں اور جب تک کوئی مستند دوا تیار نہ ہو جائے اس مرض پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہی ہے کہ اس کو پھیلنے سے روکا جائے اور اس کے شکار مریضوں سے لوگوں کو دور رکھا جائے۔ چین نے اسی طریقےکے استعمال سے اس وائرس پر قابو پایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس وائرس کو ابھی سے پھیلنے سے نہ روکا گیا تو یہ اتنا مضبوط ہو جائے گا کہ اس پر کوئی بھی موجودہ دوا کارگر نہیں ہوگی۔ اس لیے لوگوں کو خود کو اس وائرس سے ہر ممکن حد تک دور رکھنے کےلیے کچھ عرصے کےلیے گھروں میں محدود ہو جانا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG