اسلام آباد میں چینی سفارتخانے کے ترجمان نے کہا ہے کہ چین کی حکومت جائز اور قانون کے مطابق کی گئی شادیوں کو تحفظ فراہم کرے گی اور جرائم کا مقابلہ کیا جائے گا۔
چینی سفارتخانے کے ترجمان نے یہ بات خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کی اس رپورٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی، جس میں چینی باشندوں کو 629 پاکستانی دلہنیں فروخت کرنے کا انکشاف کیا گیا تھا۔
چینی سفارتخانے کے ترجمان کے مطابق چین کی حکومت کا اس بارے میں واضح موقف یہ ہے کہ اگر کوئی تنظیم یا فرد پاکستان کے اندر کسی ایسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، جس کا تعلق دونوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان شادی سے ہو، تو چین پاکستانی قوانین کے مطابق، اس جرم کو روکنے کے لئے کی گئی کسی بھی پاکستانی کارروائی کی حمایت کرتا ہے۔
چینی ترجمان کے مطابق، پاکستان اور چین کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں غیر قانونی شادیاں کرانے سے متعلق سرگرمیوں پر موثر طور پر قابو پا لیا گیا ہے۔ چین کی وزارت برائے پبلک سیفٹی کی تحقیقات کے مطابق کسی چینی باشندے سے شادی کر کے چین میں قیام کرنے والی کوئی پاکستانی خاتون کسی جبری جنسی غلامی یا اعضا کی فروخت کے کاروبار سے متاثر نہیں ہوئی۔ جبکہ چین کی جانب سے ایسی شکایات کی تفتیش میں پاکستانی حکام سے تعاون کے لئے ایک ٹاسک فورس پاکستان بھی بھیجی گئی تھی،اور یہ اقدام،چینی سفارتخانے کے ترجمان کے مطابق، موثر ثابت ہوا۔ ترجمان نے ایسو سی ایٹڈ پریس کی خبر کو بے بنیاد سٹوری قرار دیا، جو حقائق کی تہہ تک پہنچے بغیر تیار کی گئی اور کہا کہ اس سٹوری کے شائع ہونے کی وجوہات مشتبہ ہیں۔
چینی باشندوں کو 629 پاکستانی دلہنیں فروخت کیے جانے کا انکشاف
اس سے ایک روز قبل، پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی 600 سے زائد لڑکیوں کو چین میں شادی کی غرض سے فروخت کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق، پاکستانی تحقیقاتی اداروں نے تصدیق کی ہے کہ ملک بھر میں خواتین کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کیے گئے کریک ڈاؤن کے دوران چینی باشندوں کو فروخت کردہ دلہنوں سے متعلق اعداد و شمار مرتب کیے گئے ہیں۔
حکام کے مطابق، 2018 میں ایسے واقعات منظر عام پر آنے کے بعد باقاعدہ طور پر کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے بھی رواں سال اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ان خواتین کو چین میں نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب کہ ایسی بعض خواتین کو 'جنسی غلاموں' کی طرح رکھے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔
البتہ، یہ شکایات بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ اس معاملے پر چین کی ناراضگی سے بچنے کے لیے رواں سال جون کے بعد سے اس ضمن میں تحقیقات سست روی کا شکار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے شہر فیصل آباد میں پاکستانی لڑکیوں کو چین اسمگل کرنے کے الزام میں 31 چینی شہریوں کو گرفتار کیا گیا تھا جنہیں رواں سال اکتوبر میں بری کر دیا گیا ہے۔
اس کیس سے منسلک ایک پولیس افسر اور ایک وکیل نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ ان خواتین نے پولیس کو ابتدائی بیان دیا کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔ لیکن، عدالت میں انہوں نے گواہی نہیں دی۔
رپورٹ میں ایک پولیس اہلکار کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ اسمگل ہونے والی خواتین کو یا تو رقم دے کر چپ کرایا گیا یا اُنہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔
ان واقعات کو منظر عام پر لانے والے سلیم اقبال مسیح نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پر شدید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ خواتین کی اسمگلنگ کی تحقیقات روک دے۔ ان کے بقول، اس معاملے میں سرگرم افسران کے تبادلے تک کر دیے گئے۔
سلیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے بہت سی ایسی مجبور مسیحی خواتین کو بازیاب کرایا جبکہ اپنی برادری میں آگاہی دی کہ اپنی بچیوں کو شادی کے لیے چین نہ بھیجیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق، سلیم مسیح نے اس ضمن میں پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے حکام سے مؤقف جاننے کی بھی کوشش کی، لیکن انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو بھی ان خبروں کی اشاعت سے روک دیا گیا ہے جب کہ کوئی بھی سرکاری اہلکار اس معاملے سے متعلق اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ایک تحقیقاتی افسر نے بتایا کہ ان خواتین کو بچانے کے لیے کوئی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔ ’’یہ مافیا اب بھی سرگرم ہے اور اسمگلنگ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے‘‘۔
چین کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے وہ ایسی کسی بھی فہرست سے لاعلم ہیں۔ ان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ گو کہ پاکستان اور چین کے شہری باہمی رضامندی اور قوانین کے تحت شادی کر سکتے ہیں۔ البتہ، اس ضمن میں زبردستی، دھوکہ دہی یا اس کی آڑ میں خواتین کی اسمگلنگ کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتی برادری خاص طور پر مسیحی خاندانوں کو اپنی خواتین کی شادی چینی مردوں سے کرنے کے عوض معاوضہ دیا جاتا ہے۔ یہ چینی خود کو مسیحی ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان خواتین کو چین اسمگل کر کے ان سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور ان سے جسم فروشی کرائے جانے کی شکایات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔
ستمبر میں پاکستانی حکام کی جانب سے وزیرِ اعظم عمران خان کو ایک رپورٹ بھی پیش کی گئی تھی، جس میں درج تھا کہ پاکستانی خواتین کی اسمگلنگ میں ملوث 52 چینی شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 20 پاکستانی سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن ان میں سے 31 کو اکتوبر میں عدالت نے بری کر دیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ لاہور میں دو غیر قانونی میرج بیوروز اس کاروبار میں ملوث تھے اور ایک میرج بیورو ایک مدرسے میں قائم تھا جس کے ذریعے غریب مسلمان لڑکیوں کو بھی چینی مردوں سے شادی کی ترغیب دی جاتی تھی۔
پاکستان اور چین کے تعلقات میں عرصہ دراز سے گرم جوشی پائی جاتی ہے۔ چین کے اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پاکستان میں اربوں ڈالر کے منصوبے جاری ہیں اور چین بین الاقوامی فورمز پر پاکستانی مؤقف کی بھی حمایت کرتا رہا ہے۔
چین کو خواتین کی کمی کا سامنا ہے
اعداد و شمار کے مطابق، چین کی حکومت کی 'ون چائلڈ' پالیسی کے باعث بیشتر خاندان لڑکے کی پیدائش کے خواہش مند ہوتے تھے۔
چین میں 1979ء سے 2015ء تک یہ پالیسی نافذ العمل رہی تھی جس کے باعث چینی معاشرے میں مردوں اور خواتین کے تناسب میں بہت فرق پیدا ہو گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، چین کو مردوں کے مقابلے میں تین سے چار کروڑ خواتین کی کمی کا سامنا ہے۔
ان مسائل کے باعث چینی مردوں کو شادی کے لیے خواتین نہیں ملتیں جس کی وجہ سے بیرونِ ملک سے خواتین کو چین لانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کی طرح میانمار (برما) سے بھی سیکڑوں خواتین شادی کی غرض سے چین لائے جانے کے بعد دھوکہ دہی کا شکار ہوتی ہیں۔
چین کی تردید
پاکستان میں چین کے سفارت خانے نے اس حوالے جاری بیان میں تمام رپورٹس کی تردید کی ہے اور ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
چینی سفارت خانے کے بیان کے مطابق چین کی حکومت کی اس حوالے سے واضح پوزیشن ہے کہ وہ قانونی شادی کو تحفظ فراہم کرے گی جبکہ اس حوالے سے کسی بھی جرم کا انسداد اس کی ترجیح ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص یا تنظیم پاکستان میں شادی کے حوالے سے کوئی جرم کرتا ہے تو چین کی حکومت پاکستان کا ساتھ دے گی اور پاکستانی قانون کے مطابق اس کے انسداد کی حمایت کرے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چین کی وزارت پبلک سیکیورٹی نے اس حوالے سے تحقیقات کی ہیں۔ شادی کے بعد چین میں موجود کسی بھی پاکستانی خاتون کو زبردستی جسم فروشی پر مجبور نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ کسی کے اعضا فروخت کیے گئے ہوں۔
چین کا پاکستان میں موجود سفارت خانہ پہلے بھی ایسے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
چین نے حالیہ رپورٹ کو بھی بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیں گے کہ پاکستان اور چین کی دوستی کو نقصان پہنچائے اور دونوں ممالک کے عوام کے احساسات کو مجروح کرے۔