رسائی کے لنکس

لاہور: طالب علم سے مبینہ زیادتی، ملزم عزیز الرحمٰن کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی ہدایت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے شہر لاہور کی مقامی عدالت نے ایک دینی مدرسے میں طالب علم سے مبینہ زیادتی کے ملزم مفتی عزیز الرحمٰن کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ نامزد ملزم کو بیٹوں سمیت پولیس نے حال ہی میں گرفتار کیا تھا۔

پولیس نے ملزم مفتی عزیز الرحمٰن اور ان کے تین بیٹوں کو پیر کو لاہور کی کینٹ کچہری میں پیش کیا۔

پولیس کی جانب سے کیس کی تفتیش کے لیے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔ عدالت نے مفتی عزیز الرحمٰن کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے اور میڈیکل رپورٹ بھی پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔

خیال رہے کہ لاہور کے علاقے صدر میں قائم مدرسے کے ایک طالب علم نے تھانہ شمالی چھاؤنی میں دائر کی جانے والی درخواست میں الزام لگایا تھا کہ مفتی عزیز الرحمٰن اُنہیں تین برس تک زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم عزیز الرحمٰن نے عدالت میں اعترافِ جرم کرتے ہوئے کہا کہ طالب علم کو امتحان میں پاس کرنے کا جھانسہ دے کر وہ اسے زیادتی کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

پولیس کے مطابق ملزم نے اپنے بیان میں کہا کہ ویڈیو لیک ہونے کے بعد وہ خوف اور پریشانی کا شکار ہو گیا تھا۔ ملزم عزیز الرحمٰن کے اعترافی بیان کے مطابق اُس کے بیٹوں نے مبینہ زیادتی کا شکار ہونے والے طالب علم کو دھمکایا تھا لیکن اِس کے باوجود وہ ویڈیو منظرِ عام پر لے آیا۔

پولیس نے ملزم کو اُن کے ایک بیٹے سمیت اتوار کو صوبۂ پنجاب کے ضلع میانوالی سے گرفتار کیا تھا۔ پولیس کے مطابق ملزم کا دوسرا بیٹا لاہور کے علاقے کاہنہ جب کہ تیسرا لاہور ہی کے علاقے بیدیاں سے گرفتار ہوا۔

گرفتاری کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایس پی سی آئی اے شعیب خرم نے کہا کہ 65 سالہ عزیز الرحمٰن مقدمہ درج ہونے کے بعد گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئے تھے۔

شعیب خرم کے مطابق مقدمہ درج ہونے کے بعد ملزمان طالب علم کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور شارق جمال کہتے ہیں کہ طالب علم زیادتی کیس میں پولیس میڈیکل اور فرانزک شواہد جمع کر رہی ہے۔

پیر کو لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے شارق جمال نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان اس کیس میں دلچسپی لے رہے ہیں اور اُنہوں نے بھی ملزمان کی فوری گرفتاری کی ہدایت کی تھی۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن نے کہا کہ کوشش کریں گے کہ مضبوط چالان پیش کریں تاکہ ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلوائی جا سکے۔

اُن کے بقول اس کیس کے حوالے سے بہت سے شواہد موجود ہیں اور قانون کے مطابق ملزمان کو عمر قید یا 10 برس تک سزا ہو سکتی ہے۔

شارق جمال نے مزید کہا کہ اگر کوئی اور متاثرہ شہری ہے تو وہ بھی اِس سلسلے میں پولیس سے رابطہ کر سکتا ہے۔

'اتحاد اُمت اسلامک سینٹر' لاہور کے ناظم اعلٰی پیر ضیا نقشبندی سمجھتے ہیں کہ ظلم اور زیادتی جہاں پر بھی ہو وہ قابلِ مذمت ہے، لیکن مساجد، مدارس، خانقاہوں، چرچ یا دیگر مذہبی مقامات پر اگر ایسا واقعہ ہو تو اس کی ذمے داری انتظامیہ پر بھی عائد ہونی چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مذکورہ واقعہ میں مدرسے کے ناظمِ اعلیٰ ملزم نہیں لیکن قصوروار ضرور ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ مدارس میں سی سی ٹی وی کیمرے لگنے چاہیے اور اساتذہ کو اِس بات کی اجازت نہ ہو کہ وہ بچوں کے ساتھ تنہائی میں مل سکیں۔ اِسی طرح بچوں کو بھی یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ تنہائی میں کسی بھی اُستاد سے نہ ملیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ “ایسے موضوعات پر تفصیل سے بات ہونی چاہیے۔ ایسی سفارشات مرتب ہونی چاہیے جس کی روشنی میں لوگوں کو آگہی دی جائے۔"

پاکستان میں ہر روز آٹھ بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں، رپورٹ

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' کے مطابق پاکستان میں روزانہ آٹھ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جِس میں 49 فی صد لڑکے اور 51 فی صد لڑکیاں شامل ہوتی ہیں۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں پاکستان میں بچوں کے خلاف 2900 بڑے جرائم رپورٹ ہوئے۔ جن میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، اغوا اور کم عمری میں شادیوں جیسے جرائم شامل ہیں۔

واضح رہے کہ 2020 کی رپورٹ رواں برس اپریل میں شائع کی گئی ہے جس میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ 2019 کے مقابلے میں 2020 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز کی شرح میں چار فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے رپورٹ ہونے والے کیسوں میں 985 کیس جنسی زیادتی، 787 ریپ، 89 غیر اخلاقی تصاویر (پورنوگرافی) اور 80 دوسرے کیس تھے۔

طالب علم سے زیادتی کے واقعہ کے بعد عزیز الرحمٰن کو منظور اسلامیہ مدرسے سے نکال دیا گیا تھا جب کہ وفاق المدارس نے بھی مدرسے کی رکنیت منسوخ کر دی تھی۔

XS
SM
MD
LG