پنجاب کی صوبائی حکومت نے جنسی تشدد اور زیادتی کی شکار خواتین کے طبی معائنے کے طریقۂ کار میں تبدیلی کرتے ہوئے نیا طریقہ وضع کر دیا ہے۔
پنجاب حکومت کے اعلامیے کے مطابق زیادتی سے متاثرہ خواتین کی طبی جانچ کے لیے ورجنیٹی ٹیسٹ (کنوارہ پن جانچنے) کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ جس کے بعد پنجاب حکومت نے 50 سال بعد متاثرہ خواتین کی طبی جانچ کا نیا طریقہ کار وضع کیا ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس اپریل میں پاکستان میں ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کے ورجنیٹی ٹیسٹ کے طریقۂ کار کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
اس ٹیسٹ کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب جواد یعقوب نے بتایا کہ قبل ازیں ورجینیٹی ٹیسٹ میں ٹو فنگر ٹیسٹ ہوتا تھا۔ یہ ٹیسٹ عام پر طور جنسی تشدد، ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین اور سوڈومی (مرد کی مرد سے جنسی زیادتی) کے لیے ٹیسٹ کیا جاتا تھا۔ جو ان کے طبی حالت کو معلوم کرنے کے لیے ہوتا تھا۔ ٹو فنگر ٹیسٹ سے متاثرہ خاتون کے زخم کی گہرائی اور زخم کی نوعیت جانچی جاتی تھی۔
جواد یعقوب کا کہنا تھا کم سن، نابالغ خواتین اور مردوں کا طبی معائنہ ان کے سرپرست کے علاقہ مجسٹریٹ سے درخواست کے بعد ہوتا تھا۔ بالغ مرد اور بالغ خواتین خود اپنے طبی معائنے کی درخواست جمع کراتے تھے۔ جس کے بعد علاقہ مجسٹریٹ طبی معائنے کی اجازت دیتا تھا اور متاثرہ فرد کو سرکاری میڈیکل افسر کے پاس بھیجا جاتا تھا۔ سرکاری میڈیکل افسر بھی ایک بار خود متاثرہ خواتین یا مرد سے طبی معائنے سے قبل مرضی معلوم کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے پرانے طریقے کو فوری طور پر ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق وزیراعلیٰ کے احکامات پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس نے مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ ملائیشیا اور بھارت کے کیسز اور طریقہ کار کا جائزہ لیا۔ اور پاکستان کے قانونِ شہادت سمیت تمام امور کو دیکھنے کے بعد ایک نیا طریقہ کار وضع کیا۔
جواد یعقوب نے بتایا کہ ٹو فنگر ٹیسٹ کی شہادت کے حوالے سے کوئی خاص اہمیت نہیں۔ اسی لیے اس ٹیسٹ کے طریقۂ کار کو ختم کیا گیا۔
نئے ورجینیٹی ٹیسٹ کا طریقہ کار؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب جواد یعقوب کے مطابق نئے ورجینیٹی ٹیسٹ کے طریقۂ کار کے مطابق تین طرح سے متاثرہ شخص یا خاتون کا طبی معائنہ کیا جائے گا۔
ان کے بقول پہلے نمبر پر انسانی آنکھ سے مشاہدہ اور تجزیہ، دوسرے نمبر پر مشینوں یا آلات کی مدد سے اور تیسرے نمبر پر ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے متاثره فرد کا طبی معائنہ ہو گا۔
ان کے بقول آلات کے ذریعے ہونے والے ٹیسٹ میں فرانزک سائنس لیبارٹری ایک کِٹ جاری کرتی ہے۔ یہ کٹ مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔ ڈی این اے کی رپورٹ بھی اِس سلسلے میں کافی مدد دے گی۔ اِن تینوں طریقۂ کار سے بھی وہی نتائج سامنے آتے ہیں جو قبل ازیں ٹیسٹ کے ذریعے آتے تھے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پاکستان میں ریپ کیسز کے ٹرائل میں ملزمان کو سزا دینے کی شرح بہت کم ہے۔ اُن کی رائے میں سزا دینے کی شرح اِس لیے کم ہے کہ مقرر کردہ سرکاری افسر ایسے کیسز میں اپنی رائے دے دیتے ہیں۔ جس کا زیادہ تر فائدہ ملزم کو ہوتا تھا۔
جواد یعقوب کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے مطابق شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ملتا ہے۔ مدعی کو شک کا فائدہ نہیں دیا جاتا۔ جس کے بعد کسی بھی مدعی کو اپنا کیس ثابت کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔
ورجینیٹی ٹیسٹ کے طریقہ کار کے خلاف درخواست
لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ریپ کے کیسز میں میڈیکل ٹیسٹ کا مروجہ طریقۂ کار توہین آمیز ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی اس ٹیسٹ کے نتائج پر انحصار نہیں کرتیں۔ لہذا اس ٹیسٹ کا طریقۂ کار تبدیل کیا جائے۔
شائستہ پرویز نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 14 تمام شہریوں کے ذہنی و جسمانی تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن جنسی زیادتی کے کیسز میں مروجہ میڈیکو لیگل طریقۂ کار زیادتی کی شکار خواتین اور بچیوں کے ساتھ دوبارہ وہی مکروہ عمل دہرانے کے مترادف ہے۔
ورجینیٹی ٹیسٹ کیا ہے؟
پنجاب کے ضلع پاکپتن کے سرکاری اسپتال میں تعینات سینئر سرجن ڈاکٹر اعجاز احمد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ریپ کی شکار خواتین کے 'ورجنیٹی ٹیسٹ' مختلف طریقوں سے کیے جاتے ہیں جن میں پردۂ بکارت کی جانچ، خون کے نمونے اور 'ٹو فنگر' کا طریقۂ کار شامل ہے۔
ڈاکٹر اعجاز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیادتی کا شکار خواتین کے ساتھ زیادتی کی تصدیق کے لیے پردۂ بکارت کو انگلی کی مدد سے چیک کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر اعجاز کے بقول ورجنیٹی ٹیسٹ کی بنیاد اس مفروضے پر قائم ہے کہ پردۂ بکارت صرف انٹر کورس کے نتیجے میں ہی پھٹتا جو ان کے بقول درست نہیں۔
یاد رہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ بھی 2013 میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق کے لیے مستعمل ٹو فنگر ٹیسٹ کی درستگی پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے متاثرہ خاتون کی نجی، جسمانی اور نفسیاتی وقار کے منافی ٹھیرا چکی ہے۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور عالمی ادارۂ صحت بھی ورجنیٹی ٹیسٹ کو تکلیف دہ، توہین آمیز اور اذیت ناک قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کرچکی ہے۔ لیکن پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں یہ بدستور رائج ہے۔