پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے حالیہ عرصے میں سپریم کورٹ سے بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے ملزمان کی بریت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے حالیہ دنوں میں قتل اور زیادتی کے تین مختلف کیسز میں ملزمان کو نامکمل اور کمزور شواہد کی بنیاد پر رہا یا سزائیں کم کرنے کا حکم دیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ ان جرائم میں ملوث ملزمان کو سزا دینے کے لیے نہ صرف کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات لانا ہوں گی بلکہ استغاثہ اور پولیس کا نظام بھی بدلنا ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادتی میں ملوث ملزمان کو سزا دلانے کے لیے قانون موجود ہے لیکن اس پر مؤثر عمل درآمد نہ ہونے سے مجرمانہ سوچ رکھنے والے افراد کو حوصلہ ملتا ہے۔
پاکستان میں ایک طرف زیادتی میں ملوث ملزمان کو کڑی سزا دینے کے لیے آرڈیننس لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ تو دوسری طرف حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت تین مقدمات میں زیادتی کے ملزمان کی رہائی پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم 'ساحل' کے ترجمان ممتاز گوہر کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے قانون تو موجود ہیں، لیکن عمل درآمد کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔
اُن کے بقول پاکستان میں ایسے مقدمات میں ملزمان کو سزا ملنے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ پولیس کے نظام میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے تفتیشی نظام بہت ہی ناقص ہے۔ اس کے ساتھ لوگوں میں اس جرم کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے شواہد ضائع ہوتے ہیں۔
ممتاز گوہر کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں اکثر لوگ شرمندگی کی وجہ سے پولیس سے رابطہ کرنے میں کئی گھنٹوں کی تاخیر کرتے ہیں۔ پولیس بھی ایسے کیسز کی تفتیش میں اکثر غفلت کا مظاہرہ کرتی ہے اور میڈیکل کرانے میں تاخیر کرتی ہے جس کی وجہ سے مضبوط ایف آئی آر درج نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ان باتوں کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام بھی تاخیر کا باعث بنتا ہے۔ کیسز کی تعداد زیادہ ہونے اور عدالتی افسران کی کمی کی وجہ سے اکثر عدالتوں میں کئی کئی ہفتوں اور بعض کیسز میں مہینوں کی تاریخیں دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر گواہان عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے اور اس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔
ممتاز گوہر کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ تفتیشی اور عدالتی نظام کو مؤثر بنانے کے حوالے سے اقدامات کرے کیوں کہ ان سب کے بغیر ملزمان فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔
قانونی ماہر انیس جیلانی کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں اکثر ملزمان کو ریلیف صرف پراسیکیوشن کی کمزوریوں کی وجہ سے مل جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عدالتوں نے ریلیف دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص کئی سال کے بعد رہا ہوا ہے تو ان میں سے بعض کیسز ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے بھی کئی افراد سالوں تک جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔
اُن کے بقول ان افراد کی رہائی ایک اچھا قدم ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کا تفتیشی نظام نہیں جس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے ملزموں کو کیوں بری کیا؟
سپریم کورٹ نے حالیہ دنوں میں تین مختلف کیسز میں ملزمان کو شواہد کی کمی کی وجہ سے بری کیا یا پھر ان کی سزاؤں میں کمی کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے زیادتی کے بعد قتل کے ملزم خادم حسین کو 14 سال بعد بری کیا اور کہا کہ استغاثہ کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ ملزم خادم حسین پر 10 سالہ بچے کو اغوا کر کے زیادتی کے بعد قتل کرنے کا الزام تھا۔
ملزم کو ٹرائل کورٹ نے اغوا، زیادتی اور قتل کے تینوں جرائم میں تین مرتبہ سزائے موت سنائی تھی۔ بعد میں شریعت کورٹ نے بھی ملزم کی سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔
تاہم ملزم کے وکیل اکرم گوندل کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل کو ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا اور گرفتاری کے بعد شواہد بنائے گئے، عدالت نے ٹھوس شواہد نہ ہونے پر ملزم کو بری کر دیا۔
دوسرے کیس میں 60 سالہ بیوہ کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے ملزم کو 14 سال بعد بری کیا گیا۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم محمد حنیف نے 60 سالہ زیارت بی بی کو زیادتی کے بعد قتل کیا اور مقتولہ کی دو رشتہ دار خواتین نے اسے فرار ہوتے دیکھا تھا۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی امین نے کہا کہ بظاہر واقعہ جیسا بتایا جا رہا ہے ویسا لگتا نہیں، پولیس تفتیش کے مطابق ملزم کا خاتون کی طرف آنا جانا تھا۔ کسی کی تضحیک نہ ہو اس لیے زیادہ بات نہیں کر سکتے لیکن ایسی وجوہات نہیں تھیں کہ ملزم خاتون کو قتل کرتا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق لاش کو پھندا لگا کر قتل کیا گیا لیکن میڈیکل شواہد میں پھندا لگانے کی تصدیق نہیں ہوئی۔
ٹرائل کورٹ نے ملزم محمد حینف کو سزائے موت دی جسے شریعت کورٹ نے برقرار رکھا تھا تاہم سپریم کورٹ نے اسے بری کر دیا۔
تیسرے کیس میں عدالت نے ساڑھے تین سالہ بچی رمشا کے قتل میں ملوث ایک ملزم شعبان کی اپیل خارج کرتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا جب کہ شریک ملزم قیصر کی سزائے موت کم عمری کے باعث عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔
ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے 2003 میں مریدکے میں رمشا نامی ساڑھے تین سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا تھا۔ دورانِ سماعت جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ملزمان کے اپنے گواہوں کے بیانات بھی ان کے خلاف جاتے ہیں جس کی کم سن بیٹی زیادتی کے بعد قتل ہو وہ کیوں کسی پر جھوٹا الزام لگائے گا۔
ملزمان کے وکیل نے کہا کہ پولیس کا مؤقف ہے کہ لاش والی بوری گلی میں پھینکی تو لوگ جمع ہوگئے، جو لوگ جمع ہوئے ان میں سے کسی نے گواہی نہیں دی۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں گواہی دینے جاتا ہی کون ہے؟ میں تو خود بھی کسی کیس میں گواہ نہ بنوں۔ انہوں نے کہا کہ سنگین جرم کرنے والوں کو تکنیکی وجوہات پر نہیں چھوڑ سکتا۔
سال کے پہلے چھ ماہ میں 1489 بچوں کا جنسی استحصال
بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف کام کرنے والی تنظیم 'ساحل' کے مطابق رواں سال کرونا وبا کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 14 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا اور 55 فی صد بچوں کا ان کے قریبی افراد نے جنسی استحصال کیا۔
رپورٹ کے مطابق اغوا کے 331، بدفعلی کے 233، بچوں کے لاپتا ہونے کے 168، ریپ کے 160، ریپ کی کوشش کے 134، اجتماعی بدفعلی کے 104، بدفعلی کی کوشش کے 93، گینگ ریپ کے 69، بچوں کی شادی کے 59 اور جنسی زیادتی کے بعد بچوں کے قتل کے 38 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان کیسز میں 53 فی صد لڑکیاں جب کہ 47 فی صد لڑکے استحصال کا شکار ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق 28 فی صد کیسز ان مجرمان کے گھروں میں رونما ہوئے جو بچوں کے جاننے والے تھے۔ 11 فی صد متاثرہ بچوں کے اپنے گھروں، آٹھ فی صد گلیوں، چار فی صد کھیتوں جب کہ 11 فی صد کیسز دیگر مقامات پر رونما ہوئے۔