کراچی کی ایک عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم اور کراچی پولیس کے افسر راؤ انوار کو پیش نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کو آئندہ سماعت پر ملزم کو ہر صورت پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بدھ کو نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت شروع ہوئی تو مقدمے میں گرفتار تمام ملزمان کو عدالت پہنچایا گیا لیکن مرکزی ملزم ایس ایس پی راؤ انوار کو پیش نہیں کیا گیا۔
جیل حکام نے عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار کو بیماری کے باعث عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکا۔ اس موقع پر جیل حکام نے راؤ انوار کی بیماری سے متعلق جیل میں تعینات ڈاکٹر کی جانب سے جاری کردہ میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا۔
اس دوران پولیس کی جانب سے نقیب اللہ قتل کیس سے متعلق ابتدائی پیش رفت رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقیب اللہ قتل کیس کا حتمی چالان انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں جمع ہوچکا ہے۔ مقدمے میں ڈی ایس پی قمر سمیت 11 ملزمان گرفتار ہیں جبکہ سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت سمیت دیگر مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
عدالت نے راؤ انوار کو پیش نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور انہیں آئندہ سماعت پر ہر صورت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی مزید سماعت 14 مئی تک ملتوی کردی۔
دورانِ سماعت عدالت نے مفرور ملزمان کی اب تک عدم گرفتاری پر تفتیشی افسر پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔
سماعت کے بعد مقتول نقیب اللہ کے والدین کے وکیل کا صلاح الدین پنہور ایڈوکیٹ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راؤ انوار نے بیماری کا بہانہ کیا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ملزم کو بچانے کے لیے صوبے کی برسرِ اقتدار جماعت پیپلز پارٹی بھی کردار ادا کررہی ہے۔
مقتول کے والدین کے وکیل کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کو پروٹوکول میں عدالت لانے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں انصاف کی مکمل امید تو ہے لیکن اگر یہاں سے انصاف نہ ملا تو اعلٰی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں گے۔
سماعت کے دوران کیس کے مرکزی ملزم کو پیش نہ کرنے پر عدالت کے باہر جمع جرگہ عمائدین نے بھی پولیس کے خلاف نعرے بازی کی اور احتجاج کیا۔
اس موقع پر نقیب کے اہلِ خانہ کا کہنا تھا کہ اگر راؤ انوار کے ساتھ امتیازی سلوک جاری رہا اور اسے ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا تو احتجاج کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا دیا جائے گا۔
دوسری جانب محکمۂ داخلہ سندھ نے تھانہ ملیر کینٹ کو سب جیل قرار دیے جانے کا نوٹی فیکیشن منتظم عدالت میں پیش کردیا ہے۔
نوٹی فیکیشین کے مطابق راؤ انوار کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر تھانہ ملیر کینٹ میں رکھا گیا ہے جس کے لیے تھانے کو سب جیل قرار دے دیا گیا ہے۔
مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے ملزم راؤ انوار کو 21 اپریل کو جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
کراچی پولیس کے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر 13 جنوری کو مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ کو پانچ ساتھیوں سمیت قتل کرنے کا الزام ہے۔
محکمۂ پولیس پہلے ہی اپنی رپورٹ میں اس مقابلے کو جعلی قرار دے کر راؤ انوار کو اس کا ذمہ دار قرار دے چکا ہے۔
ایس ایس پی راؤ انوار کو سندھ پولیس کا طاقت ور ترین افسر سمجھا جاتا ہے اور مقتول کے اہلِ خانہ سمیت کئی حلقے یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسے بچانے کے لیے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں موجود طاقتور حلقے سرگرم ہیں۔
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی اپنے ایک انٹرویو میں راؤ انوار کو "بہادر بچہ" قرار دے چکے ہیں تاہم عوامی حلقوں کی شدید تنقید کے بعد انہوں نے اپنا یہ بیان واپس لے لیا تھا۔