رسائی کے لنکس

کرونا وائرس: امریکہ میں بندش سے جان کب چھوٹے گی؟


لاس انجلیس
لاس انجلیس

ایسے میں جب کرونا وائرس کا آسیب دنیا بھر میں لوگوں کا پیچھا کر رہا ہے، امریکہ میں بھی اس حوالے سے لاک ڈاؤن کا مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ دوسری جانب اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اقتصادی بحران اور بیروزگاری بھی جاری ہے۔

معمول کی اقتصادی سرگرمی کی بحالی آج تک کوسوں دور نظر آرہی ہے اور بے یقینی کی فضا میں لوگوں کی اگتاہٹ میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اور آبادی کا وہ حصہ جو روزانہ کی بنیاد پر اپنے گھروں کا خرچہ چلا رہا تھا، نہایت ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے لئے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار پیٹسی ویڈا کوسورا نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ لاک ڈاون میں نرمی اور معیشت کو دوبارہ کھولنے کا معاملہ صدر نے ریاستوں پر چھوڑ دیا ہے۔

تاہم، سماجی فاصلے کے لئے جو رہنما اصول جاری کئے گئے تھے، جمعرات کو ان کی معیاد ختم ہوگئی اور صدر ٹرمپ نے ان کی توسیع کا اعلان نہیں کیا، بلکہ اس خوش امیدی کا اظہار کیا کہ ریاستیں ازخود پابندیوں میں نرمی کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ لیکن، صحت عامہ کے بعض ماہرین کاروباری سرگرمیوں کو دوبارہ کھولنے کے ممکنہ نتائج کے پیش نظر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔

امریکی ریاست جارجیا نے معیشت کا پہیہ دوبارہ چالو کرنے کے سلسلے میں پہل کی ہے، جہاں بعض دوسرے کاروبار کے علاوہ ریسٹورنٹس بھی گاہکوں کے لئے کھل گئے ہیں۔

صدر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ ملک کی بیمار معیشت جلد ہی بحالی کی جانب پلٹے گی اور اقتصادی اعداد و شمار ان کے خیال میں نہایت شاندار ہوجائیں گے۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ محکمہ محنت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے وسط سے اب تک تقریباً تین کروڑ امریکی بیروزگاری الاونس کی درخواستیں دے چکے ہیں۔ ساتھ ہی فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیئرون پاویل صدر ٹرمپ کے برعکس زیادہ مایوس کن نقطہ نظر رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں کرونا وائرس کے بحران کا اقتصادی سرگرمیوں، روزگار اور افراط زر کی صورتحال پر زبردست منفی اثر دیکھنے میں آئے گا، جبکہ اس سے آگے وسط مدتی دور میں معاشی نقشہ اور بھی زیادہ خطرات میں گھرا دکھائی دے گا۔

یاد رہے کہ کرونا وائرس سے بچاو کے لئے ٹیکہ اور اس کے علاج کے لئے کارآمد دواؤں کا مسئلہ بھی طبی ماہرین اور سائنسدانوں کی مستقل توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ ان کی انتظامیہ ویکسین کی تیاری میں تیزی پیدا کرنے کے لئے نجی شعبے کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ صحت سے متعلق اعلٰی امریکی عہدیدار ڈاکٹرانتھونی فاؤچی نے اس خوش امیدی کا اظہار کیا ہے کہ ریمڈےسیویر نامی دوا سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔ تاہم، بعض ماہرین اس بارے میں شک و شبہ رکھتے ہیں۔

بائی پارٹیزن پالیسی سنٹر کے عہدیدار آنند پاریکھ کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ پیچیدہ ہے اور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام پہلوؤں کا مرحلہ وار تجزیہ اور مستقل مشاہدہ کیا جاتا رہے اور یہ کہ کامیابی کا امکان اسی حکمت عملی میں مضمر ہے۔

بہرحال تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایسے وقت جب کرونا کی عالمگیر وبا کے ہاتھوں تباہ کاریاں بدستور جاری ہیں، آئندہ کا منظر نامہ ابہام کا شکار ہی دکھائی دیتا ہے اور لوگ پس و پیش میں ہیں کہ آخر لاک ڈاون سے جان کب چھوٹے گی؟

XS
SM
MD
LG