امریکہ کے محکمۂ انصاف نے کہا ہے کہ وہ ریاست ٹیکساس کےاسکول میں فائرنگ کے جان لیوا واقعے کے بعد قانون نافذ کرنے والے پارٹنرز کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔
اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وفاقی تفتیشی ادارے 'ایف بی آئی' اور اسلحے اور دھماکہ خیز مواد سے متعلق بیورو کے اہل کار جائے وقوعہ پرفرائض انجام دے رہے ہیں۔
اپنے بیان میں اٹارنی جنرل نے ریاست ٹیکساس کے یووالڈی نامی قصبے میں بڑے پیمانے پر جانوں کے ضیاع کوایک ناقابل بیان تشدد قراردیا اور کہا کہ اس واقعے نے پوری کمیونٹی کو تباہ کر دیا ہے اور ہمارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے فائرنگ کے واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں محض چند دنوں میں بڑے پیمانے پر فائرنگ کے ناقابل فہم واقعات کے باعث غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کافی عرصے سے کانگریس میں کچھ لوگ فائرنگ کے ایسے واقعات کے بعد کھوکھلے بیانات دیتے ہیں لیکن جان بچانے کی تمام کوششوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
اسپیکرنے زور دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ کانگریس میں سبھی امریکی عوام کی مرضی پر دھیان دیں اور ایوان سے منظور شدہ دو طرفہ، کامن سینس، جان بچانے والی قانون سازی کو ایک قانون کی شکل دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اس سے قبل صدر جو بائیڈن نے قوم سے خطاب میں اسکول فائرنگ میں جانوں کے ضیاع کو دل شگاف قراد دیا تھا۔ انہوں نے امریکہ میں سرگرم ’گن لابی’ پر تنقید کی اور اسلحے کے قوانین میں تبدیلی لانے پر زور دیا ہے۔
سماجی اثرات
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس نے ایک رپورٹ میں عالمی وبا اور فائرنگ کے متعدد واقعات میں امریکی عوام کے بڑے پیمانے پر جانوں کے ضیاع پر بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا امریکیوں نے ہمیشہ ہلاکتوں اور مصائب کی بلند شرح کو برداشت کیا ہے؟
ٹیکساس میں ہونے والے واقع کے بعد منگل کو شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی وبا کے نتیجے میں امریکہ میں دس لاکھ افراد جان کی بازی ہارگئے۔ یہ اتنی بڑی تعداد اور ناقابلِ انکارحقیقت ہے کہ جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جبکہ دوسری جانب امریکہ میں ہر سال بڑے پیمانے پر فائرنگ کے تشدد کی مستقل حقیقت ہے جو ہر سال دسیوں ہزار افراد کی ہلاکتوں کا باعث بنتی ہے۔
اتنے بڑے پیمانے پر ایسی وجوہ سے ہونے والی اموات جن سے بچا جاسکتا تھا اور یہ بات کہ موجودہ پالیسی میں کو ئی تبدیلی رونما ہوتی نظر نہیں آرہی ہے یہ سوال پیداہوتا ہے کہ آیا امریکہ میں بڑے پیمانے پر اموات کو قبول کر لیا گیا ہے؟
اس سلسلے میں وبائی امراض کے ماہر اور ییل یونیورسٹی کے پروفیسر گریگ گونسالویس کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ثبوت بالکل واضح ہیں کہ "ہم امریکہ میں بہت زیادہ قتلِ عام، مصائب اور اموات کو برداشت کرلیں گے، کیوں کہ ہم نے گزشتہ سالوں میں ایسا کیا ہے۔ ہم اس کی اپنی تاریخ رکھتی ہیں۔"
یونیورسٹی آف مینیسوٹا میں سوشیالوجی کی پروفیسر اور اموات کا مطالعہ کرنے والی ماہر ایلزبتھ رگلی فیلڈ کا کہنا ہے کہ کچھ کمیونٹیز نے ہمیشہ اموات کی بلند شرح کا خمیازہ بھگتا ہے۔امریکہ میں گہری نسلی اور طبقاتی عدم مساوات ہیں، اور موت کے بارے میں ہماری رواداری جزوی طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ کس کو خطرہ لاحق ہے۔"
افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کی موت دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے،اور مجھے لگتا ہے کہ ہم وقت کے اس اتفاق کے ساتھ واقعی سفاکانہ انداز میں یہی دیکھ رہے ہیں۔"
تشدد پر تحقیق کرنے والی کولمبیا یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر سونالی راجن کا کہنا ہے کہ کووڈ نائینٹین کے مقابلے میں امریکی ردعمل اور بندوق کے تشدد کی وبا پر ملک کے ردعمل کے درمیان بہت سی مماثلتیں ہیں۔
وہ کہتی ہیں: "ہم نے طویل عرصے سے اس ملک میں بڑے پیمانے پراموات کو معمول کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ بندوقوں کا تشدد کئی دہائیوں سے صحت عامہ کے بحران کے طور پر برقرار ہے۔"
اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ہر سال ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ایک لاکھ افراد کو گولی مار دی جاتی ہے اور تقریباً 40 ہزار ہلاک ہو جاتے ہیں۔
سونالی راجن کہتی ہیں کہ بندوق کا تشدد اب امریکہ میں زندگی کا ایک ایسا حصہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اس کی ناگزیریت کے گرد ترتیب دیتے ہیں۔ بچے اسکول میں لاک ڈاؤن کی مشقیں کرتے ہیں۔ اور تقریباً نصف ریاستوں میں اساتذہ کو آتشیں اسلحہ لے جانے کی اجازت ہے۔