جمعے کو صدر ٹرمپ نے ملک کی تمام ریاستوں کے گورنروں سے کہا کہ وہ فوری طور پر اپنے علاقوں کی عبادت گاہوں کو کھول دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وبا کے دور میں ان کا کھلنا ایک لازمی ضرورت ہے۔ تاہم، نیشنل کونسل آف چرچز نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقت سے پہلے عبادت گاہیں کھولنے کے تباہ کن اثرات رونما ہو سکتے ہیں۔
نیشنل کونسل آف چرچز کے ریورینڈ مارٹن کا کہنا ہے کہ بشپ، گرجا گھروں کے رہنما اور پادری عبادت گاہوں کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے کے بارے میں تشویش رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ''ابھی تک اس وبا کے بارے بہت کچھ معلوم نہیں ہے، اور ایسے حالات میں یہ اجازت قبل از وقت لگتی ہے''۔
اپنے کلمات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر گورنروں نے عبادت گاہوں کو بند رکھنے پر اصرار کیا تو وہ ان کے حکم کو رد بھی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ''اگر کچھ گورنروں کے ذہنوں میں شراب کی دوکانیں اور اسقاط حمل کے کلنک لازمی ضرورت کے زمرے میں آتے ہیں اور عبادت گاہیں نہیں، تو یہ بات درست نہیں ہے''۔
یہ واضح نہیں آیا اس مسئلے پر صدر ٹرمپ کے پاس گورنروں کو حکم دینے کا اختیار ہے یا نہیں۔
مذہبی آزادی کی علم بردار ایک تنظیم، فرسٹ لبرٹی نے عبادت گاہوں کے کھلنے کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔
تنظیم کے سپیشل کونسل، جرمی ڈیز کا کہنا ہے کہ باعقیدہ امریکہ کو اس خبر کا انتظار تھا۔ تاہم، نیشنل کونسل آف چرچز نے انتباہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے اس اعلان سے برادری میں نفاق پیدا ہوگا۔
نیشنل کونسل آف چرچز کے سٹیون مارٹن کہتے ہیں کہ ایسے بھی لوگ ہوں گے جو اپنے علاقے کے پادریوں پر دباو ڈالیں گے کہ وہ گرجا گھر کھولیں، جبکہ اس وقت ہمارے سامنے بہترین مشورہ یہ ہے کہ ایسا کرنا قبل از وقت ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ امریکہ میں یہ وبا پہلی بار عبادت گاہ سے پھوٹی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے اور اسی لیے یہ وہ جگہ ہے جسے کھولنے سے پہلے ہمیں بہت زیادہ سوچنا چاہیے۔
امکان ہے کہ اس اعلان سے امریکی مسلمان بھی نماز عید کے بارے میں اپنے سابقہ فیصلے کو تبدیل نہیں کریں گے۔ امریکہ میں عید اتوار کے دن منائی جا رہی ہے۔
ٹرمپ کے اس اعلان کا سب سے زیادہ خیرمقدم ان لوگوں نے کیا ہے جو گھر میں قیام کی سخت مخالفت کرتے آئے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جو گروپ گرجا گھر میں عبادت کے لیے جانے پر سب سے زیادہ تیار ہوگا وہ ایونجیلک عیسائیوں کا ہوگا۔ انہوں نےدو ہزار سولہ کے صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ کی بھرپور حمایت کی تھی اور کہا جاتا ہے کہ اس بار نومبر میں بھی اسی طرح حمایت کریں گے۔