بلوچستان میں ایک شعبہ ایسا بھی ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے نظرانداز کئے جانے کے باعث تقریباً اب ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ اس شعبے سے وابستہ بیشتر پرانے فنکار کام نہ ملنے کی وجہ سے مجبوراً کوئٹہ کو چھوڑ کر دوسرے شہر وں کی جانب منتقل ہوگئے ہیں۔
کوئٹہ کے فنکاروں کا کہنا ہے کہ ڈراموں کے حوالے سے نیا تخلیقی کام ملک کے کسی بھی بڑے شہر میں نہیں ہو رہا۔ لیکن، بلوچستان میں سرکاری نہ ہی نجی سطح پر کوئی کام یا روزگار ہے۔ صوبے کے فنکار بہت کسمپُرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
نامور اداکار محمد ایوب کھوسو کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں فنکار یا اداکار اگر کوئی کام کرتے ہیں تو اُن کو اُس کا معاوضہ ہی وقت پر نہیں ملتا۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ حکومت کو بلوچستان کے فنکاروں کو روزگار فراہم کرنے کےلئے فوری اقدامات کرنے چاہیئں۔ فنکاروں کو فاقہ کشی سے بچانے کے لئے یہاں کے بلوچی، پشتو اور براہوی کے ڈراموں کو اُردو ترجمے کے ساتھ پیش کرنے چاہیئیں۔
بقول اُن کے، ’’میرے بلوچی کلچر کا ڈرامہ اُردو میں پیش ہو تاکہ دنیا اُس کو دیکھے۔ میرے کلچر سے لوگ واقف ہوں۔ میرے پشتو کلچر کا ڈرامہ اردو میں پیش ہو۔ سندھی ہو، پنجابی ہو، سرائیکی ہو، گلگت بلتستان کا ہو؛ کہیں کا بھی ہو۔ ہمارے ملک کی جتنی بھی زبانیں ہیں اُس کے کلچرل ڈراموں کو اہمیت دی جائے۔ جو بھی پرائیویٹ چینلز ہیں وہ اگر ایک دن میں ایک سگمنٹ یا پروگرام ایک صوبے کے ثقافتی پروگرام یا ڈرامے کو دے دیں، تو ہمارے جو ثقافتی لکھاری اور فنکار ہیں جو بہت اچھا لکھتے ہیں، بہت اچھی اداکاری اور گلوکاری کرتے ہیں اُن کو بہت اچھا موقع ملے گا‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’میں وائس آف امریکہ کے توسط سے پیمرا، تمام پرائیویٹ چینلز، اور پی ٹی وی کے حکام سے اپیل کروں گا کہ دوبارہ ان سنٹرز کو رونق بخشیں‘‘۔
قدرتی وسائل سے مالامال اس جنوب مغربی صوبہٴ بلوچستان میں اداکاری، گائیگی اور شوبز کے دیگر شعبوں سے وابستہ مرد و خواتین کی تعداد 350 کے لگ بھگ ہے۔ ان میں خواتین صرف ایک درجن کے قریب ہیں۔
پی ٹی وی کوئٹہ سنٹر کے مختلف ڈراموں میں کام کرنے والی اداکارہ، روبینہ ابراہیم کہتی ہیں کہ یہاں اداکارائیں صرف چند ہیں جو اردو، بلوچی، پشتو اور براہوی ڈراموں میں کام کرتی ہیں۔ لیکن، ان کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔
بقول اُن کے، ’’جب آپ کام کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کو لوگوں کی اور سوسائٹی کی بہت ساری باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ہمارا قبائلی معاشرہ ہے اس وجہ سے ہمیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں اس طرف چونکہ بہت خواتین نہیں آنا چاہتیں، تو کام یہاں مل جاتا ہے۔ لیکن، جس طرح سے آپ کام کرنا چاہتی ہیں اُس طرح سے آپ کو سپورٹ نہیں ملتی۔ اور اُس طرح سے آپ کو معاوضہ بھی نہیں ملتا۔ جتنا کام یہاں پر ہوتا ہے پہلے تو چیک وغیرہ ملنے پر مسئلہ ہوتا اور اس کے ساتھ لوگ آپ کے ساتھ تعاون نہیں کرتے، کرتے بھی ہیں تو اُس حد تک جتنا اُن کا کام ہوتا ہے۔‘‘
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مشیر عبداللہ کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو فنکاروں کی مشکلات کا احساس ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ حکومت اِن فنکاروں کو بیروزگاری سے بچانے کےلئے وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات سے بات کرے گی؛ اور اپنی طرف سے فنڈ فراہم کرکے ان فنکاروں کی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
ماضی قریب میں کوئٹہ سے حسام قاضی، اسماعیل شاہ، محمد ایوب کھوسو، ریاض جیسے بڑے نامور فنکار پیدا ہوئے۔ لیکن، اب ایک عشرے سے یہاں جمود طاری ہوگیا ہے۔
صوبے کے بعض عمر رسیدہ فنکار اس وقت بیروزگار ہیں یا پھر علیل ہیں اور حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ فنکاروں کا کہنا ہے کہ پرانے فنکاروں کو پریشان حال دیکھ کر کوئی بھی نیا ٹیلنٹ اس طرف کا رُخ نہیں کر رہا۔ گزشتہ 12 سال سے زائد عرصے میں صرف ایک یا دو نوجوان فنکاروں نے اس شعبے کو اختیار کیا ہے۔