پروٹیز ٹیم عالمی کپ دو ہزار گیارہ میں بھی چوکرز کے آسیب سے پیچھا نہ چھڑا سکی اور کوارٹر فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کھا گئی۔ کرکٹ کی آخری چھ عالمی جنگوں میں پروٹیز نے چار مرتبہ سیمی فائنل میں اور دو مرتبہ کوارٹر فائنل میں ہمت ہار دی جس میں ایک مرتبہ ان کی امیدیں بارش بھی بہا کر لے گئی ۔
ماہرین1992 سے لیکر 2011 کے ہر عالمی کپ میں پروٹیز کو فیورٹ کی حیثیت دیتے رہے تاہم ہر بار ابتدائی مرحلے میں شاندار کارکردگی دکھانے کے بعد جب فتح اس سے ایک دو قدم کے فاصلے پر ہوتی جنوبی افریقہ کے قدم ڈگمگا جاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ چوکرز (ناک آؤٹ مرحلے میں دم گھٹنا) کا داغ اس کے ماتھے پر سج سا گیا ہے۔ امید کی جا رہی تھی کہ دو ہزار گیارہ میں شاید وہ ناقدین کا منہ بند کر دیں گے لیکن اس مرتبہ بھی انتہائی اہم موڑ پر ہواکا رخ ان کے برخلاف ہو گیا ۔
پروٹیز کی بدقسمتی کا سفر 1992 کے عالمی کپ سے شروع ہوا جب سیمی فائنل میں وہ انگلش ٹیم کے مد مقابل آئے تاہم قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔میچ کے دوران ہر طرف میدان میں بارش نے پانی ہی پانی کر دیا اور جنوبی افریقہ کو فتح کیلئے صرف ایک بال پر بائیس رنز کا ہدف ملا اور یوں انہیں واپسی کی فلائٹ پکڑنا پڑی ۔
1996 کے ورلڈ کپ میں ایک مرتبہ پھرجنوبی افریقہ نے اپنے تمام گروپ میچوں میں فتح حاصل کی اور دوسرے گروپ کی سب سے نچلی ٹیم ویسٹ انڈیز کے ساتھ کوارٹر فائنل میں اس کا مقابلہ ہوا تاہم وہاں کالی آندھی اسے اپنے طوفان میں بہا کر لے گئی اور پروٹیز تنکے کی مانند ایک مرتبہ پھر ورلڈ کپ ختم ہونے سے قبل ہی اپنے وطن جا پہنچے ۔
1999 کی عالمی کرکٹ جنگ میں اس ٹیم نے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی اور وہاں اس کا معرکہ آسٹریلیا سے ہوا ۔ پورے سیمی فائنل کے بعد فتح کا فیصلہ آخری بال تک جا پہنچا ،لاس کلوسز اور ایلن ڈونلڈ میدان میں تھے ۔جیسے ہی گیند پھینکی گئی دونوں نے ایک رن مکمل کیا ، کھونے کیلئے کچھ نہ تھا اس لئے کلوسز دوسرا رنز لینے کیلئے بھی دوڑ پڑے اور مشکل اینڈ پر کامیابی سے پہنچ گئے تاہم ایلن ڈونلڈ کی غلط فہمی کے باعث رن آؤٹ نے نتیجہ ٹائی کی صورت میں نکالا اور بہترین رن ریٹ کے باعث آسٹریلیا فائنل میں پہنچ گیا ۔
2003 کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پروٹیز اپنے ہوم گراؤنڈ پر سری لنکن ٹیم کے مد مقابل آئے تاہم 1992 کی طرح اس مرتبہ بھی بارش نے میدان میں اپنا راج قائم کر لیا اور بالآخر ایک گیند پر پروٹیز کو فتح کیلئے ایک رنز کا ہدف دیا تھا مگر مارک باؤچر نے ناجانے کیا سوچ کر آخری بال روک کر فتح حریف ٹیم کی جھولی میں ڈال دی ۔
2007 میں ایک مرتبہ پھر پروٹیز سیمی فائنل میں پہنچے اور 1999 کی طرح اس مرتبہ بھی حریف ٹیم آسٹریلیا تھی لیکن پروٹیز پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 44 ویں اوورز میں 149 پر ڈھیر ہو گئے اور کینگروز نے دوسری مرتبہ سیمی فائنل میں انہیں چت کرنے کا جشن منایا۔
2011 کے جاری عالمی کپ میں امید کی جا رہی تھی کہ شاید اس مرتبہ قسمت کی دیوی پروٹیز پر مہربان ہو جائے لیکن افسوس اس بار بھی ایسا نہیں ہوا۔جنوبی افریقہ نے گروپ میں ایک مرتبہ پھر پہلی پوزیشن حاصل کی، ان کا کوارٹر فائنل میں اپنے گروپ میں چوتھی پوزیشن حاصل کرنے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم سے تھا ۔ اس مرتبہ222 کا تعاقب کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کی بیٹنگ لائن 43 اعشاریہ 2 اوورز میں ہی 172 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور یوں 49 رنز کی شکست کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اسے ابتدائی مرحلے میں شاندار کارکردگی کے باوجود قبل از وقت وطن واپسی کا ٹکٹ کٹوانا پڑے گا۔