پانچ عشروں کی کشیدگی کے بعد، امریکہ اور کیوبا کے سفارت کاروں نےدونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے امکانات تلاش کرنے کی غرض سے، جمعے کو واشنگٹن میں باہمی بات چیت کا آغاز کیا۔
یہ بات چیت امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کا ایک جزو ہے، جس کا مقصد کیوبا کے خلاف تجارتی پابندیاں اٹھانا ہے۔
محکمہٴخارجہ کے ایک اعلیٰ اہل کار نے جمعے کے روز کہا کہ جمعے کی نشست میں خصوصی طور پر واشنگٹن اور کیوبا میں جلد از جلد سفارت خانے کھولنے کے معاملے پر دھیان مرکوز رہے گا۔
اہل کار نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ وہ مرحلہ ہے جب سفارت کار کمر کس لیتے ہیں اور بات چیت کی میز پر اس مقصد کے ساتھ بیٹھتے ہیں کہ وہ ساری تفصیل طے ہوگی جس سے اس بات کو یقینی بنایا جائے کی سفارت خانے کھل جائیں اور کام کرنے لگیں، جیسا کہ یہ دنیا کے دیگر حصوں میں کام سرانجام دیتے ہیں۔
اہل کار نے کہا کہ کسی حد تک پیش رفت کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ کیوبا والے بات چیت کی میز پر کیا سوچ لے کر آتے ہیں۔
کیوبا نے کہا ہے کہ وہ سفارت خانے کے معاملے کو محکمہٴخارجہ کی جانب سے اُس فہرست سے کیوبا کا نام نکالنے سے جوڑتے ہیں، جس میں کیوبا کو دہشت گردی کے ریاستی سرپرست کے طور پر شامل ہے۔
اہل کار نے کہا کہ امریکہ کا وفد اِن دونوں معاملات کو نتھی نہیں کر رہا اور دہشت گردی کی فہرست کا جائزہ لینا ایک علیحدہ اور جاری عمل ہے۔
امریکی محکمہٴخارجہ کے اہل کار نے کہا ہے کہ کیوبا کے لوگ خوشی محسوس کرتے ہیں کہ یہ معاملہ زیر غور ہے۔ بقول اُن کے، اگر دونوں باتوں کو نتھی نہیں کیا جاتا تو سفارتی تعلقات کو بحال کرنا بہت آسان کام ہوتا۔
اہل کار نے یہ بھی بتایا کہ انسانی حقوق پر مکالمہ امریکہ کی جانب سے کیوبا کے ساتھ پہلی کھلی بات چیت ہوگی، جونہی سفارتی تعلقات بحال ہو جاتے ہیں۔
گذشتہ ماہ ہوانا میں ہی، امریکہ اور کیوبا نے تعلقات استوار کرنے کے لیے ملاقاتوں کے ایک سلسلے کا آغاز کیا تھا۔
امریکہ نے سنہ 1960میں کیوبا پر تجارتی تعزیرات لاگو کی تھیں، جس کے ایک سال بعد امریکی سفارت خانہ بند کردیا گیا تھا، جب کمیونسٹ رہنما فائڈل کاسترو نے امریکہ کی پیش پناہی والی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔