کیوبا میں سابق صدر فیدل کاسترو کے انتقال پر نو روزہ قومی سوگ منایا جا رہا ہے جس دوران قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔
دہائیوں تک اس کمیونسٹ ملک پر برسراقتدار رہنے والے صدر کے وفات کی خبر پر خاص طور پر نوجوان سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے پرچم اٹھا رکھے تھے اور یہ نعرے لگا رہے تھے "میں فیدل ہوں۔"
سوگ کے ایام میں ملک میں شراب کی فروخت معطل رہے گی اور ہر طرح کے تفریحی شوز اور کانسرٹس کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
فیدل کاسترو کے بھائی اور موجودہ صدر راول کاسترو نے جمعہ کو دیر گئے اعلان کیا تھا کہ فیدل انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی عمر 90 سال تھی۔
دارالحکومت ہوانا کے انقلابی اسکوائر اور مشرقی شہر سانتیاگو فیدل کاسترو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بڑی ریلیوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ایک کروڑ دس لاکھ آبادی والے کیوبا جزیرے کے اخبارات نے فیدل کے انتقال پر سوگ میں روایتی طور پر سرخ روشنائی کی جگہ اپنی اشاعت میں سیاہ سیاہی استعمال کی ہے۔
ہوانا کے ایک رہائشی 60 سالہ رافیل اوربے کہتے ہیں کہ "میرے لیے سب سے پہلے میری ماں، میرے بچے، میرے والد اور پھر فیدل اہم رہے۔" ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی اوائل عمری میں مرکزی علاقے سے دور ایک پسماندہ علاقے میں رہا کرتے تھے جہاں پینے کا پانی بھی نہیں تھا۔
"ہم صرف غریب ہی نہیں تھے ہم تباہ حال تھے۔ پھر فیدل آئے اور انقلاب آیا۔ انھوں نے مجھے میری انسانیت دی، میرا سب کچھ ان کا ہی ہے۔"
فیدل کاسترو نے نوجوانی میں ایک گوریلا تحریک شروع کی اور اس وقت کے آمر فلگینسیو باتستا کی فوج کو شکست دے کر 1959ء میں کیوبا کا اقتدار سنبھالا۔ 2008ء میں انھوں نے اقتدار اپنے بھائی راول کاسترو کو منتقل کر دیا تھا۔