جنوبی وزیرستان کے مرکزی قصبے وانا میں بدھ کی صبح اٹھایا جانے والا کرفیو چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد دوبارہ نافذ کردیا گیا ہے جس کے باعث علاقے میں معمولاتِ زندگی پھر مفلوج ہوگئے ہیں۔
ایجنسی انتظامیہ نے پختون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) اور حکومت کے حامی عسکریت پسندوں کے درمیان اتوار کو ہونے والے تصادم کے بعد وانا اور اس کے نواحی علاقوں میں کرفیو نافذ کیا تھا۔
منگل کی شام احمد زئی وزیر قبیلے کے جرگے اور انتظامیہ کے درمیان بات چیت کامیاب ہونے کے بعد بدھ کی صبح کرفیو اٹھالیا گیا تھا جس کے بعد وانا بازار میں دکانیں کھل گئی تھیں اور معمولاتِ زندگی بحال ہوگئے تھے۔
کرفیو ایجنسی انتظامیہ اور جرگے کے درمیان ہونے والے اس اتفاقِ رائے کے بعد اٹھایا گیا تھا جس کے مطابق بازار کی سکیورٹی کا انتظام حکومت کے حامی سابق عسکریت پسندوں پر مشتمل امن کمیٹی سے لے کر عبوری طور پر فرنٹیر کور کے دستوں اور احمد زئی وزیر قبیلے کے 120 رکنی جرگے کے سپرد کیا جانا تھا۔
اتفاقِ رائے کے مطابق عیدالفطر کے دسویں روز حکام اور جرگے کے درمیان مستقبل کے حوالے سے مزید مذاکرات ہونا تھے۔
تاہم بدھ کی دوپہر حکام نے اس وقت دوبارہ کرفیو کے نفاذکا اعلان کردیا جب حکومت کے وفادار سابق عسکریت پسندوں پر مشتمل امن کمیٹی کے جنگجووں نے وانا بازار میں قائم اپنے مورچے اور چوکیاں خالی کرنے سے انکار کردیا۔
اطلاعات کے مطابق صورتِ حال پر جرگے میں شامل قبائلی رہنمائوں نے سکیورٹی فورسز کے حکام سے رابطہ بھی قائم کیا لیکن انہیں وہاں سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔
جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ میں شامل بعض اہلکاروں نے علاقے میں کرفیو کے نفاذکی تصدیق کی ہے۔ تاہم مواصلاتی نظام کے معطل ہونے کے باعث پشتون تحفظ تحریک کے رہنمائوں اور جرگہ عمائدین سے رابطہ نہیں ہو پارہا ہے۔
اس سے قبل تحریک کے ایک اہم رہنما محسن داوڑ نے منگل کی رات سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ وانا میں پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر کے گھر کو امن کمیٹی میں شامل عسکریت پسندوں نے دوبارہ گھیرے میں لے لیا ہے مگر محسن داوڑکے اس الزام پر ایجنسی انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
احمد زئی وزیر قبیلے کے 120 رکنی جرگے میں شامل رہنمائوں نے صحافیوں کو بتایا ہے ان کی کوشش ہے کہ وہ جلد از جلد پشاور پہنچ کر وہاں اعلٰی سول اور فوجی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کرکے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
اتوار کو جھڑپوں کا آغاز امن کمیٹی کے جنگجووں کی جانب سے پی ٹی ایم کے ایک مقامی رہنما علی وزیر کے گھر کا محاصرہ کرنے اور اس پر مقامی قبائل کی جوابی کارروائی سے ہوا تھا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اتوار کو ہونے والی جھڑپ کے بعد مقامی قبائل نے نہ صرف امن کمیٹی میں شامل عسکریت پسندوں کو شہر سے بھگادیا تھا بلکہ ان کے کمانڈر عین اللہ کے گھر، دفاتر اور چوکیوں کو بھی نذرِ آتش کردیا تھا۔
واقعے کے بعد پختون تحفظ تحریک کے عہدیداروں نے نہ صرف جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا بلکہ دیگر قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع سے امن کمیٹیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
اتوار کو ہونے والے تصادم سے قبل مارچ 2007ء کے ایک معاہدے کے تحت وانا بازار کے سکیورٹی کا انتظام سابق عسکریت پسندوں پر مشتمل امن کمیٹی کے سپرد تھا۔