انگلینڈ میں منعقد ہونے والے کامن ویلتھ گیمز 2022 پیر کو اختتام پذیر ہو گئے ہیں۔ گیارہ روز تک جاری رہنے والے مقابلوں میں آسٹریلیا سب سے زیادہ تمغوں کے ساتھ پہلے، میزبان انگلینڈ دوسرے اور کینیڈا تیسرے نمبر پر رہا۔
ایونٹ میں آسٹریلوی ایتھلیٹس نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہاکی اور کرکٹ میں تو آسٹریلیا کی بالادستی کسی کے لیے نئی نہیں، لیکن سوئمنگ ، سائیکلنگ اور ایتھلیٹکس جیسے کھیلوں میں بھی ان کے کھلاڑیوں کی مہارت قابل دید تھی۔
مجموعی طور پر آسٹریلیا نے میگا ایونٹ کے اختتام پر 178 میڈلز حاصل کیے جس میں سونے کے 67، چاندی کے 57 اور کانسی کے 54 تمٖغے شامل ہیں۔
میڈل ٹیبل پر دوسری پوزیشن میزبان ملک انگلینڈ نے حاصل کی جس نے مجموعی طور پر 176 تمغے اپنے نام کیے جس میں سونے کے 57، چاندی کے 66 اور کانسی کے 53 میڈل تھے۔
کینیڈا سونے کے26 ، چاندی کے 32 اور کانسی کے34تمغوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔ اس کے مجموعی میڈلز کی تعداد 92 تھی۔ صرف چار سونے کے تمغوں کے فرق سے بھارت کو چوتھی پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا جس کے مجموعی تمغوں کی تعداد 61 تھی، جس میں 22 سونے، 16 چاندی اور 23 کانسی کے تمغے شامل ہیں۔
دو گولڈ میڈلز سمیت 8 مجموعی میڈلز کے ساتھ کامن ویلتھ گیمز کا اختتام پاکستان نے 18ویں پوزیشن پر کیا۔ لیکن کامن ویلتھ گیمز میں یہ پاکستان کی گزشتہ 52 سال کی بہترین پر فارمنس ہے۔
برمنگھم میں کھیلے گئے میگا ایونٹ میں شرکت کے لیے پاکستانی دستے میں 103 افراد شامل تھے جس میں 68 کھلاڑی اور باقی آفیشلز تھے۔ 43 مرد اور 25 خواتین کھلاڑیوں پر مشتمل اس دستے نے 12 کھیلوں میں ملک کی نمائندگی کی اور آٹھ میڈلز جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
پاکستان کی جانب سے سب سے بڑا یعنی سونے کا تمغہ دو کھلاڑیوں نے جیتا ۔ یہ کارنامہ ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ نے ویٹ لفٹنگ اور ارشد ندیم نے ایتھلیٹکس میں انجام دیا۔
نوح دستگیر بٹ نے پاکستان کے لیے پہلا گولڈ میڈل تین اگست کو اس وقت جیتا جب انہوں نے 109 کلوگرام سے زائد وزن کے کھلاڑیوں کے درمیان مقابلے میں مجموعی طور پر 405 کلوگرام وزن اٹھا یا۔
ان کی اس کارکردگی نےنہ صرف ان کا نیشنل ریکارڈ بہتر کیا بلکہ وہ کامن ویلتھ گیمز کا نیا ریکارڈ بھی بنانے میں کامیاب ہوئے۔
ادھر ارشد ندیم نے سات اگست کو جیولن تھرو میں نہ صرف سونے کا تمغہ جیتا بلکہ90 اعشاریہ ایک آٹھ میٹر تک نیزے کو پھینک کر اپنا نیشل ریکارڈ بھی بہتر کیا اور کامن ویلتھ کا ریکارڈ بھی۔
پانچ پاکستانی ریسلرز نے تمغے جیتے
پاکستان نے کامن ویلتھ گیمز میں مجموعی طور پر 6 ریسلرز بھیجے تھے جن میں سے پانچ اپنے سینے پر تمغے سجانے میں کامیاب ہوئے۔
ریسلرز شریف طاہرنے 74 کلو گرام کی کیٹیگری میں، انعام بٹ نے 86کلو گرام کی کیٹیگری میں اور زمان انور نے 125 کلو گرام کی کیٹیگری کے فائنل کے لیے کوالی فائی کرکے پاکستان کے میڈل کی امید تو بڑھائی لیکن شکست کے بعد انہیں چاندی کے تمغے پر اکتفا کرنا پرا۔
ان کے ساتھ ساتھ ریسلرز عنایت اللہ نے 65 کلو گرام کی کیٹیگری میں اور علی اسد نے 57 کلو گرام کی کیٹیگری میں سیمی فائنل میں جگہ بناکر کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔
سن 1988 میں پاکستان کے لیے اولمپک گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتنے والے سید حسین شاہ کے بیٹے شاہ حسین شاہ نے 34 سال بعد کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کے لیے 90 کلو گرام کی کیٹیگری میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
پاکستان کے اسپرنٹر شجر عباس نے ملک کے لیے کوئی میڈل تو نہیں جیتا لیکن 200 میٹر کی ریس کے فائنل میں جگہ بناکر سب کے دل ضرور جیت لیے۔
دوسری جانب مینز ہاکی اور ویمنر کرکٹ میں پاکستان کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ ویمنز کرکٹ میں بسمعہ معروف کی قیادت میں پاکستانی ٹیم اپنے تمام میچز ہار گئی۔
آسٹریلیا اور بھارت کی ٹیمیں جنہوں نے ایونٹ کا فائنل کھیلا وہ بھی پاکستان کے گروپ میں تھیں، لیکن بارباڈوس سے میچ ہارنا شائقین کرکٹ کو کافی عرصے تک یاد رہے گا۔
اسی طرح ہاکی میں بھی گرین شرٹس کوپوزیشن میچ جیت کر ساتویں پوزیشن ملی۔ گرین شرٹس نے چار میچز کھیلے جس میں صرف ایک جیتا، جب کہ دو میں اسے ناکامی اور ایک میچ برابر رہا۔
آسٹریلیا نے پاکستان کو آخری لیگ میچ میں سات گول سے شکست دے کر ایونٹ سے باہر کیا۔ گرین شرٹس میچ میں ایک بھی گول اسکور نہ کرسکے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ چار مرتبہ ورلڈ کپ ، تین بار اولمپکس اور تین ہی بار چیمپئنز ٹرافی جیتنے والی پاکستان کی ہاکی ٹیم آج تک کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ نہیں جیت سکی ہے۔
برمنگھم کامن ویلتھ گیمز میں آٹھ میڈلز جیتنے سے قبل 1970 میں پاکستان نے اسکاٹ لینڈ میں ہونے والے مقابلوں میں مجموعی طور پر 10 میڈل اپنے نام کیے تھے جس میں چار گولڈ، تین سلور اور تین برونز میڈل شامل تھے۔
سن 2002 میں مانچسٹر میں کھیلے گیے کامن ویلتھ گیمز میں بھی پاکستان کے میڈلز کی تعداد آٹھ تھی لیکن اس بار پاکستان کے قومی کھلاڑیوں نے صرف ایک گولڈ میڈل جیتا تھا ۔ آٹھ برس بعد نئی دلی میں پاکستانی دستے کے ہاتھ دو گولڈ میڈل آئےلیکن تب مجموعی میڈلز کی تعداد صرف پانچ تھی۔