دہشت گردوں کی انٹرنیٹ پر سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے انٹیلی جنس گروپ "سائیٹ" نے بتایا ہے کہ شدت پسند گروپ داعش نے بنگلہ دیش میں ہفتہ کو ایک ہندو درزی کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
بنگلہ دیش میں حکام کے مطابق تلواروں سے مسلح کم ازکم دو حملہ آور ہفتہ کی دوپہر تانگیل ضلع کے گاون دوبیل میں نیکھیل چندرا کی دکان پہنچے اور اس پر حملہ کیا۔
حملہ آور نیکھیل کو شدید زخمی حالت میں چھوڑ کر موقع سے فرار ہو گئے تھے۔
"سائیٹ" کے مطابق داعش نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ نیکھیل نے مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کی توہین کی تھی۔
2012ء میں اس ہندو درزی کو مقامی مسلمانوں نے ایسے ہی الزامات کے تحت تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
ایک مقامی پولیس افسر اسلم خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "مسلمانوں کی طرف سے شکایت کے بعد نیکھیل کو گرفتار بھی کیا گیا اور وہ تقریباً ایک ماہ تک جیل میں بھی رہا۔"
ان کے بقول جس طرح کا تیز دھار آلہ اس قتل میں استعمال کیا گیا ویسے ہی ہتھیار آزاد خیال بلاگرز کی ہلاکت میں بھی استعمال ہوئے۔
اسلم خان نے کہا کہ "ہم تحقیقات کریں گے کہ آیا اس قتل اور 2012ء میں اسے زدوکوب کیے جانے کے درمیان کوئی تعلق ہے یا نہیں۔"
پولیس کے مطابق فی الوقت اس واقعے میں کسی شدت پسند گروپ کے ملوث ہونے کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
اپریل میں بنگلہ دیش میں مبینہ طور پر مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے یہ پانچواں قتل ہے۔
داعش اس سے قبل بھی بنگلہ دیش میں ہونے والی ایسی ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن حکام ان دعوؤں کو مسترد کرتے آئے ہیں۔
ہفتہ کو ہی بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسدالزمان خان کمال کا کہنا تھا کہ داعش کی طرف سے نیکھیل کے قتل کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔