تبت سے متعلق معاملات پر چین سے مذاکرات میں ناکامی کے بعد دلائی لاما کی نمائندگی کرنے والے دو ایلچیوں نے اِس ہمالیائی خطے کو خودمختاری دلانے کے اقدامات میں چین کی عدم رضامندی پر احتجاج کے طور پر استعفیٰ دے دیا ہے۔
بھارت میں جلا وطن وسطی تبتی انتظامیہ (سی ٹی اے)نے پیر کے روز اِن استعفوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایلچیوں لودے گیاری اور کیلسانگ گیالسن گذشتہ ہفتے اپنے عہدے سےمستعفی ہوئے۔ یہ دونوں سفارتکار گذشتہ عشرے کے دوران چینی حکام سے مذاکرات کے نو دور کرچکے ہیں، تاہم اُنھیں کوئی پیش رفت حاصل نہیں ہوپائی۔
سی ٹی اے کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اِس سے قبل چین سےمثبت جواب نہ ملنے پرایلچی اپنی مایوسی کا اظہارکرچکے ہیں، جن کا مقصدجنوب مغربی چین کے تبتی بودھ علاقوں میں تناؤ کم کرنے کی غرض سے نئے اقدامات کا آغاز کرنا تھا۔
اپنے مراسلے میں ایلچیوں نے سنہ 2008سےلے کر تبت کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تناؤ چین کی حکمرانی کے خلاف بیجنگ کی پُر تشدد کارروائیوں کےنتیجےمیں شروع ہوا جس پر احتجاج کرنے ہوئے تبتیوں کا خود سوزیوں کا سلسلہ شروع کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
مراسلے میں 2008ء میں چین کو خودمختاری سے متعلق پیش کی جانے والی تجویز اور 2010ء کے یادداشت نامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بیجنگ نے اِن میں سے کسی کا کوئی جواب نہیں دیا۔
چین کا اصرار ہے کہ تبت چین کا ایک اٹوٹ انگ ہےاور سرمایہ کاری کےمنصوبے اورصحت اور فلاح کے اقدامات کے ذریعےتبتی علاقے کی دور دراز آبادی کے دل جیتنے کی کوشش کی جائے گی۔
تاہم ، متعدد تبتیوں نے اِن کوششوں کو تبتی ثقافت اور مذہبی عقائد میں مداخلت کے مترادف قرار دیا ہے۔ تبتی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ اِن ہتھکنڈوں سے تبتی بودھ مت کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔