بھارت میں دلت رہنما رام ناتھ کووند نے ملک کے 14 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اُٹھا لیا ہے۔ وہ آنجہانی کے آر نرائنن کے بعد بھارت کے دوسرے دلت راہنما ہیں جو صدر کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔
بھارت کی سب سےگنجان آباد ریاست اُتر پردیش سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے اُمیدوار رام ناتھ کوند نے گزشتہ ہفتے ہونے والے صدارتی انتخاب میں 7 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرتے ہوئے اپنی حریف یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کی نمائیندہ میرا کمار کو شکست دی تھی۔
بھارتی پارلیمان کے مرکزی ہال میں منعقد ہونے والی تقریب میں ملک کے چیف جسٹس جے ایس کھیہار نے اُن سے حلف لیا۔ اس تقریب موجودہ وزیر اعظم نرندر مودی کے علاوہ سابق وزرائے اعظم من موہن سنگھ اور دیوا گوڑا کے ساتھ ساتھ سبکدوش ہونے والے صدر پرناب مکھر جی اور سابق صدر پراتیبھا پٹیل نے بھی شرکت کی۔
حلف اُٹھانے کے بعد نئے صدر کووند نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ،’’میں اس دیس کے 125 کروڑ لوگوں کے سامنے جھکتے ہوئے یہ عہد کرتا ہوں کہ مجھے جو ذمہ داری سونپی گئی ہے، میں اسے پوری سچائی اور وفاداری سے نبھاؤں گا۔ہم میں سے ہر کوئی بھارت کی اعلیٰ روایات اور ورثے کا امین ہے جسے ہم آئیندہ نسلوں تک پہنچائیں گے۔ ‘‘
71-سالہ صدر کووند ایک پیشہ ور وکیل ہیں اور اُنہوں نے 16 برس تک بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے فرائض انجام دئے ہیں۔ وہ بیہار کے سابق گورنر ہیں اور دو مرتبہ راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔
بھارت میں سیاسی اُمور کے معروف تجزیہ کار ڈاکٹر منیش کمار نے وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ رام ناتھ کووند ایک مخصوص پس منظر سے ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں جو بھارتی جمہوریت اور سیاسی نظام کیلئے ایک اچھا شگون کہا جا سکتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نرندر مودی بھی نہایت معمولی پس منظر سے اُبھرے تھے اور وہ وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچ گئے۔ اسی طرح ہندؤں کی نچلی ذات دلت سے تعلق رکھنے والے رام ناتھ کووند بھارت میں مسند صدارت پر فائز ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر منیش کمار نے کہا کہ یہ جمہوریت کی خوبی ہے کہ کوئی شخص کسی بھی ذات، درجے یا سماجی پس منظر کے ساتھ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچ سکتا ہے۔
ڈاکٹر کمار کا کہنا ہے کہ بہار کے گورنر کی حیثیت سے بھی اُنہوں نے اُس وقت بہترین انداز میں اپنے فرائض انجام دئے تھے جب ریاست میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی حکومت مخلف سیاسی جماعت کی تھی۔ اُن کا انتخاب غالباً اُن کی اسی کارکردگی کی بنیاد پر ہی کیا گیا ہے۔ تاہم، صدر کی حیثیت سے اُن کا کوئی سیاسی کردار نہیں ہوگا اور وہ محض اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔
ڈاکٹر منیش کمار نے بتایا کہ بھارت میں دلت لوگوں کی حالت زار سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ تاہم، یہ اچھی بات ہے کہ بھارت کی سیاسی جماعتیں دلت لوگوں کو اہمیت دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے بھارتی لوک سبھا کے سابق سپیکر بھی دلت کلاس سے منتخب ہوئے تھے۔ اُن کے مطابق یہ تمام کوششیں بھارت کے سیاسی نظام کے تحت اونچی اور نچلی ذاتوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹنے کی ایک کوشش ہے۔