سابق امریکی انٹیلی جنس ڈائریکٹر اور نائب وزیر خارجہ جان نیگروپونٹے کی بیٹی کو میری لینڈ میں نشے کی حالت میں تکرار کے بعد ایک 24 سالہ شخص کو چاقو سے ہلاک کرنے کا مجرم پایا گیا ہے۔تاہم اس موت کو بلا ارادہ قتل قرار دیاگیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے بتایا ہےکہ منٹگمری کاؤنٹی کی ایک جیوری نے 29 سالہ صوفیہ نیگروپونٹے کو فروری 2020 میں یوسف راسموسن کی موت کےلیے دوسرے درجے کے قتل کا مجرم قرار دیاہے۔ جس کے لیے انہیں 31 مارچ کو سنائی جانے والی سزا میں 40 سال تک قید کا سامنا ہو سکتاہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، صوفیہ نیگروپونٹے، ہنڈورا س کےان پانچ لاوارث یا یتیم بچوں میں سے ایک تھیں جنہیں جان نیگروپونٹے اور ان کی اہلیہ نے نیگروپونٹے کے 1980 کے عشرے کے دوران اس ملک میں امریکی سفیر مقرر ہونے کے بعد گود لیا تھا۔
جان نیگروپونٹ متعدد اہم عہدوں پر فائز رہے جن میں سفارت کے علاوہ امریکی نائب وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ کے لیے امریکی ایلچی کے فرائض شامل ہیں۔
نائب ویر خارجہ کی حیثیت سے وہ پاکستان بھی آئے تھے جہاں جون 2007 میں انہوں نےا سلام آباد میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز سے ملاقات کی تھی۔ سینیئر امریکی عہدہ داروں نےصدر پرویز مشرف کے ساتھ بھی بات چیت کی تھی ، جس میں پاکستان میں سال کے آخر میں آزاد اور منصفانہ الیکشن دیکھنے کی واشنگٹن کی خواہش پر زور دیا گیا تھا۔
منٹگمری کاؤنٹی اسٹیٹ کے اٹارنی جان میک کارتھی نے بتایا کہ صوفیہ نیگروپونٹے اور راسموسن نے واشنگٹن کے ایک ہی ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی اورجس رات کو راسموسن کو مارا گیا تھاوہ دونوں ایک دوسرے شخص کے ساتھ شراب پی رہے تھے۔
اس رات ان کے درمیان دو بار تکرار ہو ئی اور راسموسن چلا گیا۔ میکارتھی نے کہا کہ جب راسموسن اپنا سیل فون لینے کے لیے واپس آیا تو صوفیہ نیگروپونٹے نے اس پر متعدد بار وار کیا، اور گردن پر ایک وار ہلاکت خیز ثابت ہوا ۔
وکیل دفاع ڈیوڈ موئس نے جیوری پر زور دیا تھا کہ وہ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ صوفیہ نیگروپونٹے اس رات اس قدر نشے میں تھیں کہ وہ کسی مخصوس ارادے کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔
’’شراب شروع سے ہی اس معاملے پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ اس کی زندگی پر محیط ہے،’’
انہوں نے مزید کہا، کہ یہ قطعی طور پر اس (واقعے میں ) مرکزیت رکھتی ہے کہ اس رات وہاں کیا ہوا تھا۔ اور یہ ان اہم وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے کہ یہ قطعی طور پر قتل نہیں تھا۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، جیوری نے صوفیہ نیگروپونٹے کو سب سے سنگین الزام کا مجرم نہیں پایا، جو پہلی ڈگری یعنی دانستہ قتل نہیں تھا۔ لیکن، انہوں نے یہ جاننے کے بعد کہ وہ راسموسن کو ’’اس قدر شدید جسمانی نقصان پہنچانے" کا ارادہ رکھتی تھی جس کا ممکنہ نتیجہ موت ہو گا۔‘‘ اسے دوسرے درجے کے قتل کا مجرم ٹھہرایا۔
مونٹگمری کاؤنٹی سرکٹ کورٹ کے جج ٹیرنس جے میک گین نے اس کے ضمانتی بونڈ کو منسوخ کرنے کا حکم دیا، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ’’راسموسن کو بہت چھوٹی عمر میں، جب اس کی پوری زندگی اس کےسامنے تھی ، اس طرح کے خوفناک طریقے سےاس دنیا سے خزرج کر دیا گیا ۔‘‘
راسموسن کے خاندان نے ایک بیان میں کہا،’’یوسف ایک مہربان اور نرم روح، ایک محبت کرنے والا شخص تھا جس نے ہمارے خاندان اور اپنے بہت سے دوستوں کو اپنی 24 سالہ زندگی میں بہت خوشی دی۔" ’’
فیصلے کے بعد، 83 سالہ جان نیگروپونٹے نے کہا کہ ان کا خاندان اپنے وکلاء سے ممکنہ اپیل پر بات کرے گا۔
’’نہ تو استغاثہ اور نہ ہی شاید جیوری نے کیس کی پیچیدگیوں اورجرم کی شدت کم کرنے والے حالات پر خاطر خواہ غور کیا ہے-یعنی صوفیہ کے ماضی کے وہ صدمے اور دیگر عوامل جو اس کےایک بہت ہی پریشان حال وجود کا باعث بنے ہیں۔ اسے الکحل کے استعمال کا شدید عارض بھی لاحق ہے‘‘۔ جان نیگروپونٹے نے کہا۔
صدر جارج ڈبلیو بش نے 2005 میں جان نیگروپونٹے کو ملک کا پہلا انٹیلی جنس ڈائریکٹر مقرر کیاتھا۔ اس سے قبل وہ ہنڈورس، میکسیکو، فلپائن، اقوام متحدہ اور عراق میں بھی سفیر رہ چکے ہیں۔
اس رپورٹ کے لئے معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔