نصرت فتح علی خان قوالی اور موسیقی کی دنیا کے ایک ایسے ستارے کا نام ہے جو فن کے آسمان پر ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ 16اگست 1997 کو ہم سے بچھڑنے والے نصرت فتح علی خان کو 20 سالوں کے دوران کوئی نہیں بھولا بلکہ اس عرصے میں جو پوری ایک نسل جوان ہوئی ہے وہ بھی نصرت فتح علی خان کو بخوبی جانتی پہنچانتی ہے پھر بھلا بھولنے کا سوال ہی کہاں اٹھتا ہے۔
نصرت فتح علی خان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے مشرقی موسیقی کو وہ مغربی طرز دی جسے سن کر لوگ جھوم جھوم اٹھے۔ انہوں نے وہ تانیں چھیڑیں جو انہیں سب سے منفرد بنا گئی۔
نصرت نے 1948 میں فیصل آباد کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی تھی، ان کے والد فتح علی خان خود بھی ایک نامی گرامی قوال تھے اور یہ چاہتے تھے کہ نصرت پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنیں یا انجینئر لیکن نصرت فتح علی نے اپنے لئے جو میدان چنا وہ قوالی اور موسیقی کا ہی میدان تھا۔ ان کے چچا اور استاد مبارک علی خان بھی قوالی کے فن میں یکتا تھے۔ انہوں نے ہی نصرت فتح علی کو موسیقی اور قوالی کے تمام آداب سے متعار ف کرایا۔
نصرت فتح علی خان کی کوئی ایک قوالی ہو تو اس کا ذکر کرتے ہوئے شاید تکلف سے کام لیا جائے لیکن نصرت نے جو بھی گایا اسے امرکر دیا ۔ پھر وہ چاہے’’ دم مست قلند مست، مست‘ ہو یاپھر’ اکھیاں اڈیکدیاں ۔۔‘
ابتدا میں ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ایک سیاسی راہنما جو ان کے کلاس فیلو تھے، انہوں نے ہی نصرت کو آواز کی دنیا میں روشناس کرایا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ جس فن کے دلدادہ تھے وہ اگر یوں متعارف نہ ہوتا تو کسی اور طرح ہو جاتا۔ بہتے ہوئے پانی کے آگے بھلا کب کوئی بندھ باندھ سکتا ہے۔
اپنی آواز کے سبب بہت جلد ان کی شہرت ملکی سرحدوں سے نکل کر بیرونی دنیا تک پھیلتی چلی گئی۔ عالمی سطح پر انہوں نے ’ ورلڈ میوزک آرٹ اینڈ ڈانس فیسٹیول ‘سے شروعات کی۔ جس کے بعد نصرت فتح علی خان کی آواز کا پوری دنیا میں جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔
وہ بھارت گئے اپنے فینز کو اپنا ہنر دکھانے لیکن بالی ووڈ انڈسٹری کے کئی بڑے پروڈیوسر اور ڈائریکٹرز نے انہیں اپنی فلموں میں گانے کی پیشکشیں شروع کر دیں۔ نصرت نے فلموں کے لئے پرفارمنس دی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے بھارت کو اپنے فن کا دیوانہ بنالیا۔
نصرت کی قوالیوں کے 125 البم ریلیز ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے ان کا نام گنیز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ میں درج ہے۔ ان کے مشہور گیتوں میں’’ اکھیاں اڈیکدیاں‘‘ ،’’ ایس توں ڈاڈا دکھ نہ کوئی‘‘،’’آفریں، آفریں۔۔‘‘’’ میری زندگی ہے تو۔۔‘‘ ، ’’ علی کا ملنگ ۔۔‘‘، وغیرہ شامل ہیں۔
عالمی شاہکار کی بات کریں تو نصرف فتح خان کا پہلا بین الاقوامی شاہکار 1995 میں ریلیز ہونے والی فلم’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ تھا۔ انہوں نے ہالی ووڈ کی ایک اور فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ میں بھی خود ہی موسیقی ترتیب دی تھی۔
نصرت فتح علی خان کو ان کی مہارت پرتمغہ’ حسن کارکردگی‘ سے نوازا۔ 1995 میں ’یونیسکو میوزک ‘ سے سرفراز کیا۔ 1997 میں انہیں ’گریمی ایوارڈز‘ کے لئے نامزد کیا گیا۔ بعد از مرگ انہیں2006 میں ’ایشین ہیروز ‘کی فہرست میں بھی شمار کیا گیا۔
سن 1997 ان کی زندگی کا آخری سال تھا۔ جاتے جاتے انہوں نے پاکستان کے لئے جو ملی نغمہ گایا وہ ان کی آواز کا آخری شاہکار ہی ثابت ہوا۔ یہ نغمہ تھا ’میرا ایمان پاکستان‘ .
اسی سال اور اسی مہینے میں جس میں پاکستان کا ’یوم پیدائش‘ ہوتا ہے اسی سے دو دن بعد یعنی 16 اگست کو انہیں اس ملک سے ہی نہیں دنیا سے بھی رخصت ہونا پڑا۔
لیکن نصرت فتح علی جیسے فنکار کبھی نہیں مرتے۔ ۔۔اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ اپنا دل ٹولئے اور جانچئے کیا واقعی وہاں نصرت فتح علی خان نہیں بستا۔۔۔