رسائی کے لنکس

کراچی کا نیا میئر : 'پیپلز پارٹی اگر اب بھی کارکردگی نہیں دکھائے گی تو کب دکھائے گی؟'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ میں آٹھ مرتبہ حکومت بنانے والی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے میئر کے انتخاب میں کامیابی کو اپنی کارکردگی کی فتح قرار دے رہی ہے وہیں جماعت اسلامی اور پاکستان تحریکِ انصاف نےاس انتخاب میں سنگین بے ضابطگیوں کے الزام لگائے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت کراچی میں پہلی بار پیپلز پارٹی کا میئر منتخب ہوا ہے۔ لیکن جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کا الزام ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کے ارکان کو منحرف اور لاپتا کرنے کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال کیا ہے۔ پیپلز پارٹی ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

مبصرین کاکہنا ہے کہ جس انداز میں میئر کا انتخاب ہوا اور انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھائے گئے اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کی سیاسی اہمیت زیادہ ہوتی۔

جمعرات کو آرٹس کونسل آف پاکستان میں ہونے والے سٹی کونسل کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے غیر سرکاری نتائج کے مطابق 173 ووٹ حاصل کیے۔ ان کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمٰن کو 161 ووٹ ملے۔

پیپلز پارٹی کو سٹی کونسل کی367 میں سے 155 نشستیں حاصل تھیں جب کہ مرکز میں اسے اپنے اتحادیوں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے ووٹ بھی ملے۔ تاہم جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن کے مطابق انہیں اپنے 130 ارکان کے علاوہ پاکستان تحریکِ انصاف کے 63 ارکان سمیت 193 ارکان کی حمایت حاصل تھی۔

میئر کے انتخاب سے قبل پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ویڈیو بیانات، انہیں اغوا کرنے کی خبریں گردش میں رہیں اور میئر کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے 30 ارکان اجلاس سے غیر حاضر رہے۔

پیپلز پارٹی کا مؤقف رہا ہے کہ نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے یو سی چیئرمینز ان سے رابطے میں تھے اور انہوں نے جماعتِ اسلامی کے نامزد امیدوار کو ووٹ دینے سے انکار کیا تھا۔

کیا یہ پیپلز پارٹی کی واپسی ہے؟

سینئر صحافی مجاہد بریلوی کے مطابق یہ درست ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کئی بار صوبائی حکومت بنانے اور مسلسل تین بار سندھ میں اقتدار میں رہنے کے بعد پہلی بار میئر بنانے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن جس انداز میں میئر کا انتخاب ہوا اس کی شفافیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کو نو مئی کے واقعات کے باوجود حلف تو اٹھانے دیا گیا لیکن میئر کے انتخاب سے قبل ان میں سے 30 لوگ منظر سے غائب ہوگئے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں الیکشن سے قبل انتخابی مینیجمنٹ شروع ہوجاتی ہے۔

ان کے بقول، " کراچی میں انتخابی دھاندلیوں کی ایک تاریخ ہے۔ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد بھی ایسی ہی آوازیں اٹھی تھیں۔

'دھاندلی کا تاثر درست نہیں'

صحافی و تجزیہ کار نذیر لغاری کے خیال میں نو مئی کے واقعات کے بعد جس طرح پی ٹی آئی کی مرکزی اور کراچی کی مقامی قیادت اپنی جماعت کے ساتھ کھڑی نہیں رہی تو یو سی چیئرمین اور بلدیاتی نمائندوں سے کیا شکایت کی جاسکتی ہے۔

ان کے خیال میں پیپلز پارٹی کو اصل نقصان اس کے داخلی اختلافات کی وجہ سے ہوا ہے اگر ان پر قابو پالیا جاتا تو پیپلز پارٹی کوشہر میں اس کا اصل مینڈیٹ مل جاتا اور وہ بہ آسانی بغیر کسی اتحاد کے اپنا میئر منتخب کراسکتی تھی۔

نذیر لغاری کے مطابق یہ تاثر بھی غلط ہے کہ کراچی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کاکوئی پہلا واقعہ ہے۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی 80 کی دہائی میں جماعتِ اسلامی سے اتحاد کرکے ڈپٹی میئر بنا چکی ہے۔

ان کے بقول بے نظیر بھی اسی تاثر کا شکار تھیں کہ انہیں کراچی میں حمایت حاصل نہیں لیکن ایک ملاقات میں انہیں بتایاگیا کہ 1970 میں بھی پیپلز پارٹی نے کراچی کی 17 میں سے نو نشستیں حاصل کی تھیں۔

نذیر لغاری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے کراچی میں نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی جگہ دوبارہ حاصل کی ہے بلکہ سیاسی سطح پر اپنا وزن بڑھایا ہے۔

دوسری جانب مجاہد بریلوی کا کہنا تھا کہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ کراچی کے موجودہ سیاسی منظر نامے سے ماضی میں شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم غیر متعلق ہوتی نظر آتی ہے۔ بلدیاتی حلقہ بندیوں میں بے ضابطگیوں کی شکایت سب سے پہلے ایم کیو ایم کی جانب سے آئی تھی جو اس وقت مرکز میں حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔

قومی سے مقامی سیاست تک

سال 2018 کے عام انتخابات میں کراچی میں قومی اسمبلی کی 21 نشستیں تھیں۔ اس کے علاوہ ملک کاتجارتی مرکز اور سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے قومی سیاست میں بھی اس کی اہمیت ہے۔

بلدیاتی سیاست اور شہری امور پر تین دہائیوں سے رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی اور روزنامہ ’دنیا‘ کے چیف رپورٹر عابد حسین کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں بلدیاتی سیاست اب مرکزی دھارے سے زیادہ دور نہیں رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ مسائل جو پہلے قومی سیاست میں اہم ہوتے تھے اب انہیں مقامی سیاست میں اہمیت ہوتی ہے اس لیے آئندہ قومی انتخاب پر کراچی کے بلدیاتی انتخاب کا عکس نظر آئے گا۔

کراچی کے کچرے کی سیاست میں عوام پریشان
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:47 0:00

عابد حسین کے مطابق پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر سعید غنی کہتے ہیں کہ وہ اب کلین سوئپ کرچکے ہیں۔ یہ بات اس طرح بھی درست ہے کہ مرکز، صوبے اور اب کراچی میں بھی ان کی حکومت بن گئی ہے۔ اس لیے وہ اس مضبوط پوزیشن کو استعمال کرکے شہر میں اپنا سیاسی سرمایہ کس طرح بڑھاتے ہیں اس کا انحصار اب ان کی کارکردگی پر ہے۔

سینیئر صحافی نذیر لغاری کی رائے میں "کراچی میں عام انتخابات کے نتائج کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے۔ کوئی 2018 میں تصور کرسکتا تھا کہ پی ٹی آئی شہر سے 14 نشستیں حاصل کرلے گی؟ لیکن ایسا ہوا۔"

ان کے بقول، قومی انتخابات میں کراچی سے نشستوں کا فیصلہ اب بھی وہیں سے ہوگا جہاں سے پہلے ہوتا آیا ہے۔

’جیالا‘ میئر آنے سے کیا فرق آئے گا؟

پیپلز پارٹی کی حکومت کے بنائے گئے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012 اور بعدازاں اس قانون میں 2021 میں ہونے والی ترمیم کے مطابق کراچی میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے تحت شہر میں قائم اسپتال ، برساتی پانی کی نکاسی، فائر فائٹنگ، کراچی چڑیا گھر، سفاری پارک، تجاوزات کے خلاف کارروائی اور پارکنگ جیسے امور میئر کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

کراچی میں صفائی ستھرائی کا انتظام سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے پاس ہے جس پر میئر کا اختیار نہیں۔ اسی طرح پولیس اور تعمیرات سے متعلق ادارہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بھی میئر کے بجائے صوبائی حکومت کے پاس ہیں۔

گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کارپوریشن بل کی منظوری کے بعد اب پانی کی فراہمی سے متعلق میئر کو اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔ اس سے قبل یہ ادارہ بھی صوبائی وزارتِ بلدیات کے پاس تھا۔ اسی طرح تعلیم کا شعبہ بھی صوبائی حکومت کے تحت آتا ہے۔

ان اختیارات کے ساتھ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والا میئر کراچی کو درپیش مسائل حل کرنے میں کتنا مؤثر ثابت ہوگا؟ اس پر صحافی و تجزیہ کار نذیر لغاری کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اگر اب بھی کراچی میں کارکردگی نہیں دکھائے گی تو کب دکھائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے پی پی پی کو شہر کو اون کرنا پڑے گا اور اپنے ذہن سے یہ بات نکالنا ہوگی کہ کراچی میں ان کا مینڈیٹ نہیں ہے۔

کراچی غیر معمولی بارشوں کے لیے کتنا تیار ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:20 0:00

سینئر صحافی عابد حسین کے خیال میں کراچی سے متعلق پیپلز پارٹی کے رویے میں بتدریج تبدیلی آئی ہے۔ پی پی پی نے شہر میں ریڈ لائن، پیپلز بس سروس جیسے منصوبے دیے ہیں۔ شہر میں مجموعی طور پر سڑکوں کی صورتِ حال میں کسی حد تک بہتری آئی ہے اور سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی کارکردگی بھی بہتر ہوئی ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ پانی کی فراہمی، تجاوزات کے خلاف کارروائی اور سڑکوں کی تعمیر و ترقی نو منتخب میئر کے لیے اب بھی بڑے چیلنجز میں شامل ہیں۔ لیکن بجلی کی فراہمی ایک ایسا مسئلہ ہے جو ان کے اختیار میں تو نہیں لیکن شہری اس کے باعث شدید پریشانی کا شکار ہیں۔

مجاہد بریلوی کہتے ہیں پی پی پی گزشتہ 15 برس سے تسلسل کے ساتھ سندھ میں اقتدار میں ہے۔ اس وقت کراچی کو جو بنیادی مسائل درپیش ہیں ان میں سے اکثر بغیر میئر بنائے ہی حل کیے جاسکتے تھے۔

ان کے خیال میں کراچی کا سنہری دور وہ تھا جب وفاق میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال کی بلدیاتی حکومتوں کو براہِ راست فنڈز فراہم کیے تھے۔ جس کی وجہ سے یہاں ترقیاتی کام ہوئے لیکن پیپلز پارٹی اٹھارہویں ترمیم کا کریڈٹ لینے کے باوجود کراچی میں پانی جیسے بنیادی مسائل کو حل نہیں کرپائی۔

مجاہد بریلوی کے مطابق کراچی میں پہلی بار پیپلز پارٹی کا میئر منتخب ہونا علامتی اعتبار سے معنی خیز ضرور ہے لیکن اس کی کراچی کے شہریوں کے لیے کیا اہمیت ہے؟ اس سوال کا جواب ان کی کارکردگی پر منحصر ہے۔

XS
SM
MD
LG