ایسے میں کہ جب دنیا یوکرین کے خلاف روسی حملے اور دوسرے تنازعات میں الجھی ہوئی ہے، ایک اور قسم کی لڑائی بھی جنم لے چکی ہے اور وہ ہے 'لوگوں کا فون استعمال کرتے ہوئے اپنی من پسند لڑائی لڑنا'۔
اور یہ لڑائی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، اس کا میدان جنگ 'ٹک ٹاک' ہے۔ یہ لڑائی نوجوانوں کا معروف مشغلہ بن چکی ہے۔ اس پلیٹ فارم کا شہرہ 'ڈانس ویڈیوز' سے شروع ہوتا ہے؛ جب کہ اس کے شرکا ایسے بھی ہیں جو اسے یوکرین کی لڑائی میں اطلاعات کی فراہمی کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔
ہر گزرتے سیکنڈ میں ٹک ٹاک پر ایک نیا غیر مصدقہ مواد میدان میں آ چکا ہوتا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ پلیٹ فارم اکثر و بیشتر صارفین کو گمراہ کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔ دنیا بھر میں اس پلیٹ فارم کے صارفین کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے۔
جیسیکا برانٹ 'بروکنگ انسٹی ٹیوشن' میں پالیسی ڈائریکٹر برائے 'مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی' ہیں۔ بقول ان کے، ''یہ ویڈیوز زمینی حقائق سے متعلق آگاہی دینے کا بہترین ذریعہ ہو سکتی ہیں۔ یہ ویڈیوز سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی بھی ہو سکتی ہیں، جن سے گمراہ کن مواد اور جعلی اثرات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اور یہی کچھ ہم یوکرین کے تنازع میں ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں''۔
سوشل میڈیا پر صرف ٹک ٹاک ایپ ہی موجود نہیں جو یوکرین کی لڑائی سے متعلق نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
رائن لوشر امریکن یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ وہ ٹک ٹاک کا مواد تیار کرتے ہیں۔ ان کے فولورز کی تعداد 18000سے زائد ہے۔ انھوں نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ روس اور یوکرین تنازع کے بارے میں جعلی بیانیے پر مشتمل بے شمار ویڈیوز موجود ہیں، جو سماجی میڈیا کی دیگر ایپس پر بھی چھا چکے ہیں۔
انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 'میں ان کو ٹک ٹاک کے علاوہ ٹوئٹر پر بھی دیکھتا ہوں۔ یہ پتا لگانا مشکل نہیں کہ ان کے موجد کون لوگ ہیں''۔
لوشر نے کہا کہ یوکرین پر روسی جارحیت کے حامی 'سازشی نظریات' کو آگے بڑھاتے ہوئے ٹک ٹاک ویڈیوز میں دعویٰ کرتے ہیں کہ روس کے مقاصد جائز تھے۔ چونکہ مبینہ طور پر یوکرین کی لیبارٹریز میں 'بایو ویپنز' تیار کیے جارہے تھے، اور یہ کہ یوکرین سے یہودی مخالف سازشیں جنم لے رہی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ کچھ جعلی اطلاعات کا مقصد گمراہی پھیلانا ہے، دوسرا مواد ایسا بھی ہے جس میں لوگوں کے عقائد اور رویوں کے معاملے کا سہارا لیا جاتا ہے تاکہ تنازع سے متعلق اپنے عزائم پر مبنی فہم، سمجھ بوجھ کو پھیلایا جا سکے۔
دوسری جانب امریکن یونیورسٹی کے طلبا کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ حقائق پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ گمراہ کن اطلاعات کا توڑکیا جا سکے۔ بحیثیت ایک روسی شہری، تکاکووا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک کے بارے میں غلط بیانیے کو درست کرنے کی کوشاں ہیں۔
رائن لوشر نے بتایا کہ وہ ٹک ٹاک پر اطلاعات کی درستگی کے لیے دستیاب 'ٹولز' کا استعمال کرتے ہیں۔ بقول ان کے، غلط مواد پلیٹ فارم پر ڈالنے والوں کے بارے میں بھی ادارے کو مطلع کرتا ہوں''۔