ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تنازعات اور قدرتی آفات کے نتیجے میں گذشتہ سال دنیا بھر میں اندرونی طور پر بے دخل ہونے والے افراد کی تعداد چار کروڑ آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی، جو کہ اب تک سب سے بڑی تعداد ہے۔
داخلی طور پر بے گھر ہونے والے مہاجرین کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ناروے کے مرکز (این آر سی) نے بدھ کے روز بتایا کہ 2015ء کے دوران ملک کے اندر بے دخل ہونے والے افراد کی تعداد دو کروڑ 78 لاکھ تھی۔
کارل شیمبری اس مرکز کی مشیر برائے مشرق وسطیٰ کے طور پر کام بجا لارہی ہیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ کو انٹرویو میں اُنھوں نے اسے ’’افسوس ناک امر‘‘ قرار دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2015 میں اوسطاً روزانہ 66000 افراد بے گھر ہوئے، اور یوں گذشتہ سال یہ تعداد نیو یارک سٹی، لندن، پیرس اور قاہرہ کی مجموعی آبادیوں کے مساوی تھی۔
جان ایجلینڈ، اس کونسل کے سکریٹری جنرل ہیں۔ بقول اُن کے، ’’دنیا کو نقل مکانی کی ایک شدید بحرانی صورت حال درپیش ہے، جو ہر سال سنگین ہوتی جارہی ہے؛ چونکہ اب بہت سے مقامات تنازع یا آفت کی زد میں ہیں‘‘۔
اِن 86 لاکھ افراد میں سے 60 فی صد مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے نتیجے میں یمن، شام اور عراق میں بے دخل ہوئے۔ سنہ 2010 میں ’عرب اسپرنگ‘ داعش کے منظر پر آنے کے دوران، جو اب شام، عراق اور دیگر ملکوں میں لڑائی لڑ رہی ہے، بنیادی طور پر اس بے دخلی کی یہی وجوحات ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تنازعے کے نتیجے میں بے دخل ہونے والے افراد جو اپنے آبائی ملکوں تک محدود ہیں، اُن کی تعداد مہاجر بن کر باہر کے ملکوں کی جانب نکلنے والے افراد کے تناسب سے دوگنا ہے۔
شیمبری کے بقول، ’’وہ سرحدیں پار نہیں کر رہے، چونکہ زیادہ تر ایسا نہیں کر سکتے۔ اُن کے اتنے وسائل نہیں یا پھر سرحدیں بند ہیں‘‘۔
شیمبری کے مطابق، مشرق وسطیٰ کے نقل مکانی کے بحران کا کوئی فوجی یا انسانی ہمدری کی بنیاد پر حل موجود نہیں۔ اُن کے الفاظ میں، ’’یہ صرف سیاسی مکالمے کے ذریعے حل ہوسکتی ہے، جس سے طویل مدتی امن میسر آئے گا۔ لڑائی میں شامل تمام فریق کو بات میں شامل کیا جانا چاہیئے۔ وہ تمام ملک جو اثر و رسوخ کے حامل ہیں، نا کہ وہ عمل جو اب تک ہوتا آیا ہے جس سے آگ کے شعلے مزید بھڑک اٹھتے ہیں۔ سب کو مل کر کام کرنا ہوگا اور میدان جنگ میں موجود افراد سے اسلحہ واپس لینا ہوگا‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے علاوہ داخلی طور پر نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کا تعلق افغانستان، جمہوریہ وسط افریقہ، جمہوریہ کانگو، نائجیریا، ساؤتھ سوڈان، یوکرین اور کولمبیا سے ہے۔
قدرتی آفات کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت، چین اور نیپال کے علاوہ 113 ملکوں میں قدرتی آفات آئیں جن کے نتیجے میں لوگوں کے گھر اجڑے۔ اس کی ذمہ دار زیادہ تر موسم کی شدت جیسا کی آندھیاں اور سیلاب ہیں۔ گذشتہ آٹھ سال کے دوران، قدرتی آفات کے باعث 20 کروڑ 34 لاکھ افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش، کیوبا اور ویتنام جیسے کئی ایک ملکوں نے قدرتی آفات سے بچاؤ اور تیاری کی استعداد بڑھائی ہے؛ جب کہ دیگر ملکوں کو مزید کام کی ضرورت ہے۔