پشاور ميں ادارۂ تحفّظ ماحوليات (انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی - ای پی اے) ایسے موبائل ٹاورز تلاش کر رہا ہے جو قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں۔ اس ضمن میں تمام موبائل ٹاورز کی جانچ پڑتال بھی کی جا رہی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے ايسے تمام موبائل ٹاورز، جن سے انسانی جانوں یا لوگوں کی صحت کو نقصان پہنچنے کا انديشہ ہو، کو گنجان آباد علاقوں سے ہٹانے کا حکم جاری کیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ انسانی جان سے بڑھ کر کوئی بھی چيز اہم نہیں ہے۔
جسٹس عبدالشکور اور جسٹس قيصر رشيد پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کيس کی سماعت کرتے ہوئے محکمۂ ماحوليات اور نجی کمپنيوں کو موبائل ٹاورز رہائشی علاقوں، مساجد، گراؤنڈ، اسپتالوں اور اسکولوں سے ملحقہ علاقوں ميں نصب کرنے سے روک ديا تھا۔
سال 2018 ميں پشاور کے رہائشی محمد نعيم نے يہ الزام عائد کيا تھا کہ موبائل ٹاورز سے نکلنے والی شعاعوں سے ان کی اہليہ اور بيٹے کو کينسر کا مرض لاحق ہو گیا ہے۔ انہوں نے ايڈووکيٹ نور عالم خان کی وساطت سے پشاور ہائی کورٹ ميں مقدمہ دائر کیا تھا۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے نور عالم خان نے بتايا کہ ان کے مؤکل کو شوکت خانم ميموريل ٹرسٹ اسپتال کے ڈاکٹروں نے بتايا تھا کہ ان کی اہليہ اور بيٹے کو کينسر ممکنہ طور پر موبائل ٹاور کی خطرناک شعاعوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
محکمۂ ماحوليات کا کہنا ہے کہ پشاور کے تمام موبائل ٹاورز کا سروے مکمل کيا جا چکا ہے اور آئندہ سماعت پر ڈيٹا عدالت کو فراہم کر ديا جائے گا۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے محکمۂ ماحوليات کے ڈپٹی ڈائريکٹر ذاکر حسين نے بتایا ہے کہ ان کی ٹيموں نے پشاور ہائی کورٹ کے فيصلے کی روشنی ميں تمام ٹاورز کی مانيٹرنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام ٹاورز مطلوبہ قوائد کے تحت کام کر رہے ہيں۔ البتہ عدالت نے حکم دیا ہے کہ رہائشی علاقوں ميں جتنے بھی ٹاورز ہيں، ان کی دوبارہ مانيٹرنگ کی جائے۔
پاکستان ٹيلی کميونی کيشن اتھارٹی کی ويب سائٹ کے مطابق اس وقت ملک بھر ميں سات کروڑ 60 لاکھ سے زائد براڈ بينڈ صارفين ہيں۔
گزشتہ سال محکمۂ ماحوليات کے ڈائريکٹر محمد بشير نے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے بتايا تھا کہ پشاور شہر ميں کل 366 موبائل ٹاورز نصب ہيں۔ رہائشی علاقوں ميں 195، اسکولوں کے قريب 46 اور مساجد کے ساتھ 55 ٹاورز نصب ہيں۔
محکمۂ ماحوليات کے قوائد و ضوابط کے مطابق رہائشی علاقوں ميں موبائل ٹاور کی کم از کم اونچائی 35 ميٹر ہونی چاہیے اور تعليمی اداروں اور اسپتال سے کم از کم 100 ميٹر کے فاصلے پر ہونے چاہئيں۔ نيز آثار قديمہ کی سائٹ سے بھی موبائل ٹاورز کا فاصلہ کم از کم 200 فيٹ ہونا لازمی ہے۔
محکمۂ ماحوليات کے ڈپٹی ڈائريکٹر ذاکر حسين کا کہنا ہے کہ یہ کيس عرصۂ دراز سے عدالت ميں ہے۔ ان کے بقول عدالت بھی اسے جلد نمٹانا نہیں چاہتی، کيوں کہ يہ ختم ہونے والا معاملہ ہی نہیں ہے۔
انہوں نے مزيد کہا کہ موبائل ٹاور ميں صرف نقصان دہ شعاعوں کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ جنريٹر کے شور کے بھی کافی مسائل ہيں۔ خیال رہے کہ بجلی کی لوڈ شيڈنگ کے باعث موبائل کمپنياں جنريٹر استعمال کرتی ہيں۔
ذاکر حسین کے مطابق شہريوں کی جانب سے زیادہ تر شکایتیں جنريٹر کے شور سے متعلق آتی ہيں۔ ليکن ان کی نظر سے کبھی کينسر سے متعلق کوئی کيس نہیں گزرا۔
پروفيسر ڈاکٹر ںاصر خان جدون ريڈيولوجی کے شعبے سے 30 سال سے زائد عرصے تک وابستہ رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موبائل ٹاورز سے نکلنے والی شعاعيں اس حد تک خطرناک نہیں ہوتيں کہ کينسر کا سبب بن سکيں۔
ماہرِ امراض سرطان ڈاکٹر يعقوب محمودی بھی 30 سال سے زائد عرصے تک ريڈيولوجی اور نيو کليئر ميڈيسن کے شعبے سے منسلک رہے ہيں۔ وہ بھی ڈاکٹر ناصر خان جدون سے اتفاق رکھتے ہيں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے موبائل ٹاور کی شعاعوں سے متعلق ڈاکٹر یعقوب محمودی نے بتايا کہ اگرچہ يہ شعاعيں خطرناک نہیں ہيں، لیکن انسانی جسم کا درجۂ حرارت بڑھانے کا موجب ہو سکتی ہيں۔
انہوں نے کہا کہ موبائل ٹاورز سے پيدا ہونے والی يہ گرمائش زمينی سطح پر اس قدر نقصان دہ نہیں ہوتی کہ کوئی مضر اثرات مرتب کر سکيں۔