شام کے شہر حلب میں بشارالاسد کی حکومت نے بیرل بموں اور فضائی حملوں سے شہر کے مکینوں کو تباہ کر دیا ہے، جبکہ متعدد شہریوں نے زخمیوں کو بچانے اور ملبے میں دبے افراد کو نکالنے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال دی ہیں۔
زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ان رضاکاروں نے2013ء میں شام کے شہری دفاع کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا، جسے دنیا ’وائٹ ہیلمٹ‘ کے نام سے جانتی ہے۔
شام کے فلمساز، فارس فیاض نے اپنی دستاویزی فلم Last Men in Aleppo میں اِنہی رضاکاروں کی اپنے محصور شہر کے لئے محبت اور قربانیوں کی بے مثال داستان پیش کی ہے۔
اِس دستاویزی فلم کا مرکزی کردار خالد ہے، جو کسی بھی اعتبار سے ہیرو نہیں ہے۔ لیکن، پھر بھی ہر کوئی اس کی جراٴت مندی اور بہادری سے وابستگی محسوس کرتا ہے۔ شہر کے وسط میں کھنڈروں کے درمیان خالد تنہا شخص ہے جو حلب میں ٹنوں ملبے کے نیچے دبے زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو نکالنے کے لئے موجود ہے۔ وہ اپنے بیلچوں کے ساتھ ملبے کو کھودتا ہے۔
اس فلم کے انتہائی جذباتی مناظر میں سے ایک منظر وہ ہے جب وہ ایک ننھے بچے کو ملبے سے نکالتا ہے۔
’وائٹ ہیلمیٹ‘ والے ایک ملبے کا ڈھیر ہونے والی عمارت کے شگاف سے بہت ہی احتیاط کے ساتھ بچے کو نکالتے ہیں۔ پہلے سر کو اور پھر بچے کے جسم کو باہر کرتے ہیں۔ بچے کے جسم سے خون بہہ رہا ہے۔ وہ گرد آلود ہے۔ لیکن، زندہ ہے۔ باقی بچے اس کی طرح خوش قسمت نہیں ہیں۔
کیمرا ان مناظر کو محفوظ کرتا ہے، جب وہ لوگوں کو باہر نکالتے ہیں۔ اردگرد، لوگ سسکیاں لے کر روتے ہیں یا چیخ و پکار کرتے ہیں۔ اور پھر بے جان جسموں کو نکالنے کے لئے لپکتے ہیں۔
فلمساز فارس فیاض نے اپنی دستاویزی فلم کے لئے ’سن ڈانسں فلم فیسٹیول‘ میں ایک بڑا انعام حاصل کیا ہے۔ لیکن، وہ اس کا پورا کریڈیٹ نہیں لیتے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس فلم کے مناظر کو فلم بند کرنے کے لئے سینماٹوگافرز کے ایک گروپ نے کام کیا۔ حلب کے میڈیا سینٹر نے مسلسل بمباری کے دوران دن رات ’وائٹ ہیلمٹ‘ کا ساتھ دیا۔
فیاض کہتے ہیں کہ وہ شہر میں انسانیت کے خلاف کئے جانے والے جرائم کی طرف توجہ دلانا چاہتے تھے۔ وہ دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ یہ شہری جو ہر روز موت کا سامنا کرتے ہیں اور مستقل خوف کے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں وہ ہم جیسے لوگوں سے مختلف نہیں ہیں۔
Last Man in Aleppo دستاویزی فلم میں توجہ کا مرکز وہ شامی شہری ہیں جنہوں نے خالد کی طرح یہاں رہنے کا انتخاب کیا۔ وہ ان خطرات سے بخوبی واقف تھا جن کا ان کی بیوی اور بچوں کو روزانہ سامنا ہوتا تھا۔
تباہی کے باوجود، لوگ ابھی بھی دوستوں اور اپنے خاندانوں میں خوشی حاصل کرتے ہیں۔ فیاض کہتے ہیں کہ حکومت شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے جس نے اُنھیں شہریوں کی ہلاکت کی کہانی تحریر کرنے کی طرف مائل کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میری سوچ کا آغاز یہ تھا کہ جنگ کی وجہ سے انسان کا بدترین رویہ سامنے آتا ہے لیکن یہی جنگ بہترین انسانی رویوں کی وجہ بھی بنتی ہے۔
فیاض نے 2013 میں حلب کے محاصرے کی فلم بندی کا آغاز کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کو گرفتار کیا گیا اور دو مرتبہ قید میں بھی رکھا گیا۔ اُنہیں شہر چھوڑنا پڑا۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہ واپس نہیں جا سکے کیونکہ روسی بمباری کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہو رہے تھے، جس کے بعد اُنہوں نے حلب میڈیا سنٹر، ویڈیو جرنلسٹس اور شہری صحافیوں جیسے افراد سے مدد لی جو اُن کی ہدایات کے مطابق کیمرہ استعمال کرتے اور حلب میں زندگی اور موت کی فلمبندی کرتے ہیں۔ وہ آجکل جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر وہ شام واپس لوٹیں تو اُنہیں موت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
فیاض کے الفاظ میں ’’مجھے روسیوں پر غصہ آتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ مجھے حکومت پر بھی غصہ آتا ہے جو روزانہ شامی شہریوں کو ہلاک کرتی ہے۔ اب میں یہاں اسٹوڈیوز میں بیٹھا ہوا ہوں اور میرے خاندان کے آس پاس کے مقامات پر بمباری ہو رہی ہے۔ میرا خاندان ابھی بھی شام میں رہائش پزیر ہے اور میں کسی بھی وقت اپنے خاندان سے محروم ہو سکتا ہوں‘‘۔
فیاض بتاتے ہیں کہ اُن سے پوچھا گیا کہ اگر اُنہیں یہ معلوم ہو کہ بشارالاسد نے اپنے ہی عوام کے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا ہے، تو کیا وہ حیران ہوں گے؟ جس پر اُنہوں نے کہا کہ ’’بالکل نہیں‘‘۔
ممکن ہے اس فلم کو دیکھنا دشوار ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ آپ کو تقویت بھی دے گی۔ یہ اُس رحمدلی کی عکاسی کرتی ہے جس کو تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس دستاویزی فلم کی فلم بندی کے دوران خالد کی طرح ان گنت افراد اپنے ہمسائیوں کو بچاتے ہوئے خود موت کے منہ میں چلے گئے۔