فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے کہا ہے کہ بدھ کو کوسوو کے ایک شہری نے امریکی وفاقی عدالت کے سامنے اقبالِ جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اُنھوں نے حقوقِ دانش کی چوری پر مبنی معلومات دہشت گردوں کو فراہم کی، جس معاملے کو حکام نے اپنی نوعیت کا پہلا کیس قرار دیا ہے۔
اردت فریزی نے اپنا بیان ورجینیا کی مشرقی ریاست میں واقع امریکی ضلعی عدالت کے روبرو ریکارڈ کرایا۔ اُنھوں نے اِس بات کا بھی اقرار کیا کہ اُنھوں نے 1000 سے زائد شہریوں کی شناخت کا ریکارڈ چوری کرکے داعش کو فراہم کیا۔
توقع ہے کہ اُن کے خلاف ستمبر میں فیصلہ سنایا جائے گا۔ دہشت گردی کی حمایت کرنے پر، اُنھیں زیادہ سے زیادہ 20 برس کی قید کی سزا ہوسکتی ہے؛ جب کہ بغیر اجازت کےمحفوظ کمپیوٹر تک رسائی اور اطلاعات کے حصول کے الزام پر پانچ سال قید ہوسکتی ہے۔
قید کاٹنے کے بعد، فریزی نے کوسوو واپس جانے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، جہاں کے وہ شہری ہیں۔
ایک بیان میں، ایف بی آئی نے بتایا ہے کہ فریزی جت ہاتھوں امریکی فوجی اور وفاقی ملازمین شکار بنے۔
قومی سلامتی کے بارے میں معاون اٹارنی جنرل، جان کارلن نے کہا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس کا تعلق دہشت گردی اور سائبر کرائم سے ہے، جس مرغوبے کے بارے میں سلامتی کے حکام کو طویل مدت سے خطرہ لاحق رہا ہے۔
امریکی اٹارنی، دانا بوئنٹے نے کہا ہے کہ ’’انفرادی طور پر اور کاروباری اداروں کے لیے، ’سائبر ٹررزم‘ امریکہ میں ایک باقاعدہ جرم کا درجہ رکھتا ہے‘‘۔
فریزی نے تسلیم کیا کہ سنہ 2015 میں جون سے اگست کے دوران اُنھیں ایک امریکی کمپنی کے ڈیٹابیس تک رسائی حاصل تھی، جہاں سے اُنھوں نے معلومات کا ڈیٹا داعش کے حوالے کیا۔
اُنھوں نے تسلیم کیا کہ اُنھیں یہ معلوم تھا کہ اس معلومات کے استعمال سے داعش امریکی شہریوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔