منی سوٹا میں ایک جیوری نےتین صومالی نژاد امریکیوں کے خلاف داعش کے شدت پسند گروپ کو مادی حمایت فراہم کرنے کی سازش کے تمام الزامات پر قصور وار ٹھہرایا ہے۔
مقدمے میں وفاقی امریکی استغاثہ نے محمد فرح، غلید عمر اور عبد الرحمٰن دائود پر فرد جرم عائد کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 20 برس سے کم عمر کے اِن ملزمان نے داعش کے لیے لڑنے کی غرض سے شام کے سفر کا منصوبہ تیار کیا تھا۔
اُن پر بیرون ملک جا کر قتل میں ملوث ہونے کی سازش کا مجرم ہونے کا فیصلہ سنایا گیا، جس کی سزا عمر قید ہے۔ مدعا علیہان، جنھیں بعدازاں سزا سنائی جائے گی، پیشی کے داران موجود تھے۔ اُنھوں نے فیصلہ سنا اور کسی جذبے کا اظہار نہیں کیا۔
اس مقدمے میں منی سوٹا کی صومالی امریکی کمیونٹی نے خاصی دلچسپی لی، جس کے تقریباًٍ ایک درجن ارکان داعش میں شامل ہو چکے ہیں، جبکہ چند برس قبل، اُن کے تقریباً 20 نوجوان صومالیہ میں سرگرم عمل الشباب میں شامل ہوئے تھے۔
فرح، عمر اور دائود صومالی امریکی مردوں کے ایک گروہ میں شامل ہیں جن پر ایف بی آئی نے مارچ، سنہ 2014میں کچھ ماہ تک نگرانی رکھی تھی۔ اُسی ماہ اس گروہ کے ایک رکن پر اُس وقت شبہ ظاہر کیا گیا جب اُس نے فوری سفری بندوبست کرتے ہوئے ترکی کے پاسپورٹ کی درخواست دی۔ تاہم، سوال پوچھے جانے پر اُس نے اپنے دورے کے بارے میں خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔
اس مقدمے کا زیادہ تر انحصار ملزمان کے ایک دوست، عبدالرحمٰن بشیر کی جانب سے کئی گئی آڈیو ریکارڈنگ پر تھا، جو دراصل ایف بی آئی کا ایک مخبر تھا۔ بشیر نے عدالت کو بتایا کہ تعاون کرنے پر ایف بی آئی نے اُنھیں 100000 سے زائد ڈالر کا معاوضہ دیا۔
بشیر جس نے کسی وقت ملزمان کے ساتھ مل کر داعش میں شمولیت کی سازش کی تھی، اپنے دوستوں کے خلاف عدالت کے روبرو شہادت دیتے ہوئے روپڑا۔
دو دیگر ملزمان جنھوں نے اقبال جرم کیا وہ ہیں عبداللاہی یوسف اور عبدالرزاق ورسامع۔ اُنھوں نے بھی اپنے دو سابق دوستوں کے خلاف شہادت دی۔
مدعا علیہان کے وکلا نے اِن شہادوں کے خلاف جرح کرتے ہوئے دلیل دی کہ ایف بی آئی کے مخبروں نے ملزمان کو پھنسایا ہے، جنھیں ریکارڈ کی گئی گفتگو کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔
اپنے دفاع میں غلید عمر نے جیوری کو بتایا کہ جب وہ شام کے سفر سے متعلق گفتگو کے دوران ملزمان محض بات کر رہے تھے، وہ سنجیدہ نہیں تھے۔ بقول اُن کے، ’’ہم سب شیخی بگھارتے ہیں‘‘۔
دیگر دو مدعا علیہان، محمد فرح اور عبدالرحمٰن دائود نے بیان نہ دینے کا فیصلہ کیا۔
والدین کو تعصب برتے جانے کی پریشانی
بدھ کو مقدمہ جیوری کے حوالے کرتے ہوئے، امریک ضلعی جج، مائیکل ڈیوس نے سات خواتین اور پانچ مردوں کے ایک گروپ سے کہا کہ ’’منصفانہ فیصلے‘‘ کی کوشش کی جائے، جس میں ثبوت پر انحصار ہو اور مشاورت کے تقاضوں کو بغیر کسی تعصب کے پورا کیا جائے۔
تب بھی، مدعا علیہان کے والدین نے سوال اٹھایا آیا سفید فاموں پر مشتمل جیوری اِن ملزمان کو انصاف فراہم کر سکتی ہے۔
دائود کی والدہ، فریحہ محمود نے ’وائس آف امریکہ‘ کی صومالی سروس کو بتایا کہ ’’یہ جیوری سفید فاموں کی ہے، جس میں کوئی صومالی، سیاہ فام، مسلمان نہیں ہے۔ جس کسی نے بھی یہ مقدمہ سنا، جس کارروائی کو نشر کیا گیا، وہ لفظ ’دہشت گرد‘ سن کر پریشان ہوا۔ یہ لوگ دہشت گردی کے لفظ سننے پر حساس ہو جاتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کا وکلا پر پورا اعتماد ہے۔ تاہم، مزید کہا کہ ’’جو کچھ ہوتا ہے اُس میں اللہ کی مرضی شامل ہوتی ہے‘‘۔
محمد فرفح کی والدہ، ایان فرح نے کہا کہ اگر جیوری اُن کے بیٹے کو قصور وار قرار دیتا ہے ، تو وہ اُس کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گی۔
بقول اُن کے، ’’جب تک ہمیں انصاف نہیں ملتا، ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ہمیں تین بار اپیل کا حق حاصل ہے۔ اور ہم عدالت عظمیٰ تک جائیں گے۔ تاہم، اگر یہیں معاملہ ختم ہوتا ہے، اور ہمارے بچوں کو بری کرکے گھر جانے دیا جاتا ہے، تو یہی ہم چاہتے ہیں‘‘۔