ایک امریکی شہری جس نے امریکہ سے بھاگ کر داعش کے دہشت گرد گروپ میں شمولیت اختیار کی، جس کے بعد اوسان درست ہونے پر واپس لوٹا، اُنھیں دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے۔
محمد جمال خویس کی جمعرات کو ورجینیا کے شہر الگزینڈریا کی وفاقی عدالت کے کمرے میں پیشی تھی۔ اُن پر داعش کو مادی اعانت فراہم کرنے کی سازش کا الزام ہے۔
چھبیس برس کے اس شخص کا نام اُس وقت شہ سرخیوں میں آیا جب اُنھیں مارچ میں شمالی عراق میں کرد پیشمرگہ افواج نے حراست میں لیا۔ اس طرح وہ داعش کے رکن کے طور پر میدانِ جنگ میں پکڑا جانے والا پہلا امریکی تھا۔
اُس وقت کُرد اہل کاروں نے بتایا کہ اُن کی افواج نے خویس کو شمالی عراقی شہر، سنجار کے قریب پھرتے ہوئے دیکھا۔ اُنھیں گولی مار کر پکڑا گیا۔
خویس کی تلاشی لینے کے بعد پتا چلا کہ کرد افواج نے اُن سے تین موبائل فون، میموری کارڈس، دو بینک کارڈس اور 450 امریکی ڈالر کے نوٹ برآمد کیے۔
عدالت کی دستاویز میں الزام لگایا گیا ہے کہ لندن اور ترکی سے ہوتے ہوئے خویس نے دسمبر 2015ء میں شام کا سفر کیا اور چار دیگر رنگروٹوں کے ہمراہ داعش کے علاقے کے اندر داخل ہوا، حالانکہ وہ اکیلا امریکی تھا۔
فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ اُن کی مذہبی تربیت کے دوران، خویس نے ’’ہاں میں جواب دیا جب داعش نے اُن سے پوچھا آیا وہ خودکش بم حملہ آور بننے پر تیار ہے‘‘، حالانکہ وہ کسی فوجی تربیت یا فوجی کارروائیوں میں حصہ لینے سے انکار کرتا ہے۔ دولت اسلامیہ کا دوسرا نام داعش ہے۔
عدالت کے سامنے کی گئی مقدمے کی دستاویز خویس کی جانب سے کردستان 24 ٹی وی کو بتائی گئی کہانی کے برخلاف ہیں، جو انٹرویو اُنھوں نے حراست میں لیے جانے کے کچھ ہی دِن بعد دیا تھا۔
خویس نے ایڈٹ کیے گئے انٹرویو میں انگریزی میں بتایا کہ ’’مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ میں نے ایک لڑکے کے ہمراہ جانے کا غلط فیصلہ کیا اور میں موصل گیا‘‘۔
اُنھوں نےعراقی لڑکی کے بارے میں بتایا، جو ایک خاتون کی بہن تھیں جنھوں نے داعش کے ایک لڑاکے سے شادی کی ہوئی تھی، جنھوں نے اس بیکار سفر کا بندوبست کیا۔
تاہم، فرد جرم میں کسی لڑکی کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ برعکس اس کے، ایف بی آئی کے تفتیش کاروں نے مقدمہ بنایا ہے کہ داعش کے دہشت گرد گروپ میں شمولیت کا خویس کا فیصلہ بے مقصد نہیں تھا۔
اُنھوں نے بتایا کہ خویس نے اس بات کا اقرار کیا کہ اُنھوں نے 2015ء میں اس دہشت گرد گروپ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا شروع کی، اور وہ اکثر داعش کے ارکان کی وڈیو دیکھا کرتے تھے، جن میں دہشت گرد کارروائیاں کرتے اور قیدیوں کو پھانسی دیتے دکھایا گیا تھا۔
دستاویز کے مطابق، خویس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ دہشت گرد گروپ کے طریقہ کار اور امریکہ کو تباہ کرنے کی اُن کی خواہش سے آگاہ تھے۔
اٹارنی جان زرولنگ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خویس کو بدھ کے عراق سے امریکہ لایا گیا اور وہ ابھی اپنے والدین سے نہیں ملا۔
خویس کے والدین کے بارے میں زرولنگ نے بتایا کہ ’’اُنھیں بے چینی سے انتظار ہے، لیکن وہ خوش ہیں کہ میں واپس آگیا ہوں‘‘۔
والدین نے بتایا ہے کہ اُن کے آباوٴ اجداد کا تعلق فلسطین سے ہے۔ والد نے کہا کہ وہ 1988ء میں امریکہ آئے۔