اسلام آباد پولیس نے کم سن گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کے الزام میں تھانہ ہمک میں سول جج کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ بچی کو تشویش ناک حالت میں لاہور منتقل کیا گیا ہے جہاں اس کا علاج جاری ہے۔
وفاقی پولیس نے بچی کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جس میں حبس بے جا میں رکھنے اور تشدد کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
مقدمے کے متن کے مطابق 14 سالہ رضوانہ 10 ہزار روپے کے عوض چھ ماہ سے سول جج کے گھر ملازمہ تھی۔ بچی سے ملاقات کے لیے آنے پر معلوم ہوا کہ وہ حبسِ بے جا میں بدترین تشدد کا شکار ہے۔
بچی کے والد کے مطابق 23 جولائی کو وہ اپنی بیٹی سے ملنے جج کے گھر آئے تو وہاں ایک کمرے میں بچی موجود تھی جو رو رہی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ "جب میں نے اپنی بیٹی کو دیکھا تو اس کے سر کی پچھلی جانب زخم تھا اور سر میں چھوٹے چھوٹے زخم تھے جن میں کیڑے پڑے ہوئے تھے۔"
بچی کے والد کا مزید کہنا تھا کہ بچی کے بازو اور ٹانگیں بھی زخمی تھیں۔ چہرے پر زخم تھے اور ایک دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "بیٹی سے جب پوچھا تو اس نے بتایا کہ جج کی بیوی روزانہ مجھ پر ڈنڈوں، سوٹوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھی اور رات کو بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھی۔"
وفاقی پولیس نے لاہور جنرل اسپتال سے ابتدائی میڈیکل رپورٹ حاصل کرنے کے بعد مقدمہ درج کر لیا ہے۔
ترجمان وفاقی پولیس کے مطابق جج کی اہلیہ کے مبینہ تشدد سے بچی کا دانت، ناک بازو اور پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ ملزمہ کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے۔
بچی اسلام آباد کیسے آئی؟
سرگودھا کے 88 شمالی چک کی 14 سالہ رضوانہ کو اس کے والدین نے مختار نامی شخص کے ذریعے ملازمت دلوائی تھی یہ بچی چھ ماہ سے اس گھر میں کام کر رہی تھی۔
والدین نے الزام لگایا کہ جج کی اہلیہ نے زیور چوری کا الزام لگا کر بیٹ سے مارا۔ بچی کی حالت غیر ہونے پر جج کی اہلیہ اسے والدہ کے حوالے کر کے چلی گئی۔
والدہ اسے لے کر واپس سرگودھا آئی جہاں ڈی ایچ کیو اسپتال میں طبی امداد دی گئی جس کے بعد اسے لاہور ریفر کر دیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق ملازمت پر بھجوانے والے شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور قانون کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے۔
ترجمان وفاقی پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمہ کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ چائلڈ ٹریفکنگ کا کیس ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے پاکستان میں کام کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
'بچی نے گملے کی مٹی کھائی جس سے الرجی ہوئی'
جج عاصم حفیظ کا ایک بیان سوشل میڈیا پر آیا ہے جس میں انہوں نے بچی پر تشدد کے الزام کی تردید کی ہے۔
اُن کا کہا ہے کہ بچی نے گملے کی مٹی کھائی تھی جس کی وجہ سے اسے الرجی ہوئی ہے۔
پاکستان میں گھریلو ملازمین پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اسلام آباد میں دسمبر 2016 میں تھانہ آئی نائن کے علاقے میں طیبہ نامی ایک گھریلو ملازمہ پر تشدد کا کیس سامنے آیا تھا۔
اس وقت ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے بچی کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ بعد میں کیس ثابت ہونے پر راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ کو ایک ایک سال قید اور 50،50 ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی تھی۔
اس وقت کے چیف جسٹس, جسٹس ثاقب نثار نے اس پر ازخود نوٹس بھی لیا تھا اور کارروائی کے دوران اس کے والدین نے ایڈیشنل سیشن جج کو معاف کردیا تھا لیکن عدالت نے کیس چلاتے ہوئے طیبہ کو سویٹ ہوم بھجوا دیا تھا۔
سوشل میڈیا پر رضوانہ تشدد کیس پر مختلف افراد کی طرف سے شدید مذمت کی جا رہی ہے اور جج کی بیوی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔