جمعرات کو جاری کی گئی تازہ رپورٹ میں اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ایک ماہر نے عالمی برادری کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ میانمار کے فوجی حکمرانوں کے مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر مظالم کے سامنے عوام کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے لیزا شیلائن کی رپورٹ کے مطابق جنیوا میں عالمی ادارے کے خصوصی نمائندے ٹام اینڈریوز نے اپنی رپورٹ میں میانمار کے عوام کے خلاف فوجی جنتا کی مسلسل جاری ظلم کی ایک دردناک تصویر پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں گزشتہ سال کی تباہ کن فوجی بغاوت کے بعد سے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، لاکھوں لوگ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں کےایک لا متناہی سلسے کا شکار ہیں۔
میانمار میں جاری ہولناک خلاف ورزیوں کی فہرست کا حوالہ دیتے ہوئے اینڈریوز نے بتایا کہ 28 ہزار سے زیادہ گھر تباہ کردیے گئے ہیں، اور پورےپورے دیہاتوں کو نذر آتش کردیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے ماہر نے بتایا کہ سینکڑوں بچوں سمیت 12 ہزار سے زائد افراد کو من مانی کرتے ہوئے انتہائی نامساعد حالات میں حراست میں لیا گیا ہے اور میانمار کو معاشی بدحالی میں ڈبو دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق میانمار کی فوج روزانہ بنیادوں پرجنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ان جرائم میں جسمانی اور جنسی تشدد، شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور قتل شامل ہیں۔
ابھی تک میانمار کی فوجی حکومت نے انسانی حقوق کی اس رپورٹ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
اینڈریوز نے اس انسانی بحران پر بین الاقوامی برادری کے ردعمل کو سخت مایوس کن قرار دیا۔ میانمار کے لوگوں کے احساسات کو بیان کرتے ہوئے اینڈریوز نے کہا کہ وہ مایوس اور ناراض ہیں کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک فنڈنگ، تجارت اور ہتھیار مہیا کرکے درحقیقت اس غیر قانونی اور سفاک فوجی جنتا کو آگے بڑھنے کے قابل بنارہے ہیں۔
"لیکن لوگ ان قوموں سے بھی مایوس ہیں جو ان کی حمایت میں آواز یں تو اٹھاتی ہیں، لیکن پھر اپنے الفاظ کا عملی مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔"
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے میانمار میں تنازع پھیل رہا ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ عام شہری جنتا کے خلاف ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔ اس تناظر میں اینڈریوز نے خبردار کیا کہ فوج اور مسلح نسلی گروہوں کے درمیان بڑھتا ہوا تنازع پناہ گزینوں کے پانچ سال پہلے کے اخراج کی طرح لوگوں کے بڑے پیمانے پر ملک چھوڑ کر جانے کا باعث بن سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اگست 2017 میں ظلم و ستم اور بڑے پیمانے پر تشدد نے سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو بنگلادیش کے کوکس بازار میں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا۔ خصوصی رپورٹ کے مصنف نے بتایا کہ کہ میانمار میں آج بھی امتیازی سلوک، جبر، اور انسانی حقوق کے وہ حالات، جنہوں نے لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ لینے پر مجبور کیا، برقرار ہیں۔
اینڈریوز نے کہا کہ میانمار میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا انہیں بھول گئی ہے، یا انہیں اس کوئی پرواہ نہیں ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے لوگوں کے اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ ان بہادر لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں جو اپنی زندگیوں، اپنے بچوں اور اپنے مستقبل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔