پاکستان کی فوج نے افغان سرحد سے ملحقہ شوال میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے جب کہ اسی اثناء یہاں ایک مبینہ امریکی ڈرون حملے میں کم ازکم پانچ مشتبہ شدت پسند ہلاک ہوگئے ہیں۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جون میں شروع کیے گئے آپریشن "ضرب عضب" میں شمالی وزیرستان کے نوے فیصد علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کروایا جا چکا ہے اور اب دہشت گرد افغان سرحد پر واقع اس دشوار گزر علاقے شواہ میں روپوش ہو رہے ہیں جن کے خلاف بھرپور کارروائی کی جا رہی ہے۔
ہفتہ کو دیر گئے شوال کے علاقے میں ایک مبینہ امریکی ڈرون حملے میں کم ازکم پانچ مشتبہ شدت پسند ہلاک اور دو زخمی ہو گئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق بغیر پائلٹ کے جاسوس طیارے سے ایک مکان پر دو میزائل داغے گئے۔
حملے سے مکان مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور یہاں موجود کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مرنے والوں میں تین غیر ملکی شدت پسند بھی شامل ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی اس علاقے میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والی ہلاکتوں اور واقعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
شمالی وزیرستان کو القاعدہ سے منسلک طالبان شدت پسندوں کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا جن کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان پر حالیہ برسوں میں کافی دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ اس علاقے میں ڈرون حملے بھی تواتر سے ہوتے رہے ہیں لیکن گزشتہ جون سے پاکستانی فوج کی طرف سے ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں شروع ہونے کے بعد ان حملوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ ڈرون حملوں کا اس کے فوجی آپریشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ حملے اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں لہذا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔
فوجی آپریشن سے حاصل ہونے والے نتائج کو امریکہ سمیت عالمی برادری قابل ستائش قرار دیتی ہے اور مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ اس سے ملک میں ماضی کی نسبت دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی قابل ذکر کمی واقع ہوئی ہے۔
سلامتی کے امور کے ماہر اور قبائلی علاقوں کے سابق سیکرٹری محمود شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شوال کے بھی اکثر علاقے کو کلیئر کروایا جا چکا ہے اور جہاں اس وقت کارروائی جاری ہے وہ ایک مشکل ترین جگہہ ہے۔
"اس آپریشن کی بہت ضرورت ہے گوکہ یہ تاخیر سے شروع ہوا لیکن اس سے آپ نے دیکھا کہ دہشت گردی میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔"
فوجی آپریشن کی وجہ سے اس علاقے سے لگ بھگ چھ لاکھ افراد نقل مکانی کر کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں عارضی طور پر رہائش کے لیے مجبور ہوئے۔
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں سے صاف کروائے گئے علاقوں میں ان بے گھر افراد کی واپسی کا سلسلہ مارچ میں شروع ہوا تھا، اب تک سینکڑوں خاندان اپنے اپنے علاقوں کو واپس جا چکے ہیں۔