رسائی کے لنکس

اہداف کو نشانہ بنانا صبر آزما کام ہے: ڈرون پائلٹ


فضائی اڈے میں بیٹھ کر ڈرون کو اڑانے والے ایک اہلکار نے کہا کہ "ہم سب کچھ دیکھتے ہیں، ان کی روزمرہ کی خرید و فروخت سے لے کر کپڑے دھونے تک۔"

امریکہ انسداد دہشت گردی کی جنگ میں بغیر ہوا باز کے طیارے "ڈرون" کو ایک موثر ہتھیار قرار دیتا ہے۔ عراق اور افغانستان کی طویل جنگوں کے بعد وہ اپنے ڈرون پروگرام کا یہ کہہ کر دفاع کرتا رہا ہے کہ ان کی بدولت امریکی فوجیوں کو خطرے میں ڈالے بغیر دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں اسے مدد ملی۔

لیکن حالیہ برسوں میں ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سوچ اس سے قطعی مختلف ہے۔

یہاں رہنے والوں کی اکثریت ڈرون حملوں کو بلا امتیاز کارروائی قرار دیتی ہے جس میں ان کے بقول دہشت گردوں کی نسبت عام شہری زیادہ تعداد میں ہلاک ہوئے۔

ایک قبائلی حبیب نور اورکزئی کا کہنا تھا کہ "یہ تمام ڈرون حملے کم ہی اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں اور 98 فیصد حملوں میں شہری آبادی اس سے متاثر ہوتی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام قبائلیوں کی طرف سے پیغام دینا چاہتے ہیں کہ "ان (ڈرون) کے اہداف غلط تھے، ان کی تحقیق جو بھی تھی وہ سراسر غلط ہے۔"
ہولو مین ایئر فورس بیس
ہولو مین ایئر فورس بیس

امریکہ کی ریاست نیو میکسیکو میں واقع ہولو مین ایئر فورس بیس میں فوجیوں کو بغیر ہوا باز طیارے کو چلانے اور اس کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے۔

گھنٹوں امریکی فوجی پاکستان اور یمن میں پرواز کرتے ان ڈرون طیاروں میں لگی دوربینوں سے مشتبہ دہشت گردوں کی تلاش میں مصروف اور ان کے اہداف کی نگرانی میں مصروف رہتے ہیں۔

فضائی اڈے میں بیٹھ کر ڈرون کو اڑانے والے ایک اہلکار نے کہا کہ "ہم سب کچھ دیکھتے ہیں، ان کی روزمرہ کی خرید و فروخت سے لے کر کپڑے دھونے تک، ہم انھیں صبح بیدار ہوتے ہوئے بھی دیکھیں گے۔"

وائس آف امریکہ کے پینٹاگون کے لیے نمائندے اور پاکستان میں موجود نامہ نگار نے امریکی ڈرون پروگرام کا انھیں اڑانے والے اہلکاروں پر اثر اور ڈرون حملوں سے متاثر ہونے والے پاکستانیوں کے تاثرات و تحفظات کا جائزہ لیا۔

دونوں جانب ان حملوں کے قانونی جواز اور اثرات کے بارے میں ایک دباؤ دیکھنے میں آیا۔

امریکی فضائیہ شاذو نادر ہی صحافیوں کو ڈرون کے اڈوں تک رسائی کا موقع دیتی ہے لیکن کم از کم سال میں ایک بار ہولومین بیس میں وہ اپنی تربیت گاہ کا دورہ ضرور کرواتی ہے۔

بڑے بڑے کنٹینرز کی حجم کی منقولہ عمارتوں میں سینکڑوں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو جدید ہوا باز بننے کی تربیت دی جاتی ہے اور انھیں فضائیہ ’ریموٹلی پائیلیٹڈ وہیکلز‘ اٹھانا سکھا رہی ہے۔

یہ اہلکار "مہلک اور غیر مہلک" ڈرون اڑا رہے ہیں ۔ ان سے نہ صرف نگرانی کا کام لیا جاتا ہے بلکہ کہیں پر بم گرانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ایک طیارے کو دو لوگوں ( ایک پائلٹ اور ایک سینسر آپریٹر) کی ٹیم ہوتی ہے۔ سینسر آپریٹر جہاز کے تمام کیمروں کو کنٹرول کرتا ہے زمین پر ہدف کی نشاندہی کرتا ہے۔ بسا اوقات اسے کئی گھنٹوں بلکہ دنوں تک اس پر نظر رکھنا ہوتی ہے جس کے بعد پائلٹ حملہ کرتا ہے۔

حملہ تو پائلٹ ہی کرتا ہے لیکن اس کے حتمی اجازت اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے دی جاتی ہے۔
ڈرون طیارہ
ڈرون طیارہ


تربیت گاہ میں موجود اسٹاف سارجنٹ ارمیا نے بتایا کہ "کسی ایک ٹھکانے کو کئی ہفتوں، دنوں اور مہینوں دیکھنے کے بعد ہم اس قابل ہوں گے کہ ہمیں معلوم ہو کہ وہ (ہدف) صبح کب جاگیں گے۔" ان کا کہنا ہے کہ یہ کام کا سب سے مشکل ترین مرحلہ ہے۔

ہوابازوں کے دباؤ سے متعلق ایک ماہر نے بتایا کہ بعض معاملات میں ڈرون کے عملے کے لیے کسی ہدف کو نشانہ بنانا ہوا میں پرواز کرنے والے لڑاکا طیارے سے حملہ کرنے والے پائلٹ کی نسبت کہیں زیادہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

جارج میسن یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک پالیسی کی پروفیسر اودری کرتھ کرونن نے بتایا کہ "یہ براہ راست ہلاک کیے جانے جیسا ہوتا ہے جس کے ہمارے فوجیوں اور ہوا بازوں پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔"

میری لینڈ میں ماہر نفسیات جین اوٹو نے حال ہی میں ڈرون طیاروں کے ہوا بازوں اور دیگر لڑاکا طیاروں کے پائلٹس کی ذہنی صحت کے موازنے پر مبنی ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ چونکہ ڈرون کے پائلٹ براہ راست لڑائی میں شامل نہیں ہوتے اس لیے انھیں ذہنی دباؤ یا مرض کا کم خطرہ ہوتا ہے۔

"ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں گروپوں کی ذہنی صحت پر اثرات سے متعلق اعداد و شمار کچھ اتنے مختلف نہیں۔"

بریڈلی ہوگلینڈ، امریکی فضائیہ میں کرنل ہیں اور ائیر فورس میں ڈرون پائلٹس سے متعلق تحقیقات کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ خاص طور پر جب مشن کی تکمیل کی بات ہو تو اس میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔

’’درست فیصلہ کرنے کے لیے آپ ان نوجوان ائیرمین کے کندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔‘‘

پاکستانی عہدیداروں کا الزام ہے کہ اس طرح کے حملے بیشتر اوقات عام شہریوں کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔

ڈرون حملے پاکستان میں بڑے پیمانے پر امریکہ مخالف مظاہروں کا سبب بھی بنے اور مظاہرین حکومت پر دباؤ بڑھاتے رہے کہ وہ اپنی فضائی حدود میں جاسوس طیاروں کی پروازیں بند کرائے۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے بھی امریکی صدر براک اوباما سے گزشتہ سال اکتوبر میں وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران ڈرون حملوں کو بند کرنے کا کہا تھا۔

پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے غیر سود مند ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کہتی ہیں کہ ’’خطے میں امن و استحکام کے لیے حکومت کی کوششوں پر ڈرون حملوں کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔‘‘

کئی حکومتوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے دباؤ کے بعد اوباما انتظامیہ نے ڈرون حملے محدود کر دیئے ہیں۔

امریکہ کی حکومت ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد نہیں بتاتی۔ تاہم واشنگٹن میں قائم ایک تنظیم ’نیو امریکہ فاؤنڈیشن‘ کے اعداد و شمار کے مطابق 2004 سے اب تک پاکستان میں ڈرون حملوں میں لگ بھگ 3400 افراد ہلاک ہوئے۔ اس گروپ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 300 عام شہری تھے۔

اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2010 میں 128 ڈرون حملے کیے گئے جب کہ 2013 میں ان کی تعداد 27 تھی۔

اقوام متحدہ کے خصوصی تفتیش کار برائے انسداد دہشت گردی بین ایمرسن کہتے ہیں کہ ’’گزشتہ نو سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ 2013 کے دوران (پاکستان میں) ڈرون حملوں میں کوئی شہری ہلاک نہیں ہوا۔‘‘

ایمرسن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں صورت حال کچھ مختلف ہے جہاں 2013 کے دوران ڈرون حملوں میں 45 شہری ہلاک اور 14 زخمی ہوئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ 2012 کے مقابلے میں افغانستان میں گزشتہ سال شہری ہلاکتوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا۔
یمن میں ڈرون حملہ (فائل فوٹو)
یمن میں ڈرون حملہ (فائل فوٹو)


یمن میں 2009 سے ڈرون حملوں میں پانچ سو شہری ہلاک ہوئے۔

ہولو مین میں ائیر فورس کے پائلٹ مسٹر میٹ جو لڑاکا طیارے اور ڈرون اڑاتے ہیں، نے کہا کہ اُنھیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ڈرون کا ہی دور ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُنھیں سونپا گیا کام آگے بڑھ رہا ہے کیوں کہ ان کے استعمال سے زمین پر موجود امریکی فوجیوں کو دیسی ساخت کے بموں اور دوسرے خطرات سے بچانے میں مدد مل رہی ہے۔

’’یہ ہمارے ساتھیوں کو دیسی ساخت کے بموں سے بچاتے ہیں اور برے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔‘‘

لیکن پاکستان کے قبائلی علاقے اورکزئی سے تعلق رکھنے والے نور اورکزئی کہتے ہیں کہ ’’خدا نے اُنھیں (امریکہ کو) بہت کچھ دیا، اُن کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے، اور بہت اچھا ہو گا اگر اس (ٹیکنالوجی) کو مناسب طریقے سے استعمال میں لایا جائے۔‘‘
XS
SM
MD
LG