افغان حکام پیر کو آنے والے شدید زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ اب تک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق ملک میں 76 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حکام نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ متاثرین کی امداد کے لیے افغان حکومت کی مدد کریں۔
ریکٹر سکیل پر 7.5 شدت سے آنے والے زلزلے کا مرکز پاکستان، تاجکستان اور چین سے ملحقہ افغان صوبے بدخشاں میں ہندوکش پہاڑی سلسلے میں 196 کلومیٹر گہرائی میں واقع تھا جبکہ زلزلے کے بعد جھٹکوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ ترین جھٹکا منگل کو طلوع آفتاب سے کچھ دیر پہلے محسوس کیا گیا۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کے مطابق زلزلے سے 268 افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ کم از کم 4,000 گھر اور عمارتیں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی طرف سے کارروائیوں اور سلامتی کی صورتحال کے باعث بچاؤ اور امداد کا کام متاثر ہو سکتا ہے۔ تاہم طالبان نے کہا ہے کہ وہ امدادی کاموں میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ ہندو کش پہاڑی سلسلے میں مواصلاتی نظام مثاثر ہوا ہے جس سے یہاں کے مختلف علاقوں میں نقصان کا ابتدائی اندازہ لگانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ادھر کابل میں نیٹو حکام نے کہا ہے کہ وہ امدادی آپریشنز کی منصوبہ بندی میں افغان سکیورٹی فورسز کی مدد کر رہے ہیں۔
شدید زلزلے کے بعد امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت متعدد ممالک نے افغانستان کو امداد کی پیشکش کی ہے۔
واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا ہے کہ امریکہ کا بین الاقوامی ترقی کا ادارہ زلزلہ متاثرین کے لیے ہنگامی پناہ گاہیں اور امدادی کٹیں دینے کے لیے تیار ہے۔
بوسٹن کالج میں ارضیاتی اور ماحولیاتی سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر جان ایبل کا کہنا ہے کہ گہرائی میں زلزلہ آنے کے باعث اس کی شدت کم ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس سے ہونے والا نقصان زلزلے کے علاقے میں مرکوز ہونے کی بجائے پھیلا ہوا ہو گا۔
مگر ان کا کہنا تھا کہ پہاڑی علاقوں میں غیر مستحکم ڈھلوان اور مٹی کے تودے گرنے سے مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
’’اگر ایک گاؤں میں مٹی کا تودہ گرے تو اس سے عمارتیں منہدم ہوں گی مگر مٹی کے تودے سڑکوں، مواصلاتی نظام اور بجلی کے نظام کو بھی خراب کر سکتے ہیں جس سے دوردراز علاقوں تک رسائی ختم ہو سکتی ہے۔‘‘
حالیہ زلزلے سے چھ ماہ قبل 25 اپریل کو نیپال میں شدید زلزلہ آیا تھا جس میں کم از کم 9,000 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور نو لاکھ کے قریب گھر جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے۔