امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی تاریخی گراوٹ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد معاشی ماہرین نے ملک میں مہنگائی کے نئے طوفان کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں مہنگائی کی موجودہ شرح 25 فی صد سے کہیں اوپر جاسکتی ہے۔اگرچہ یہ اضافہ حکومت کے لیے محصولات کے اہداف کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوگا جس کا فیصلہ آئی ایم ایف کے ساتھ آٹھویں جائزے میں کیا جاچکا تھا اور اس پر عمل درآمد ہی کی صورت میں آئندہ جائزہ اجلاس کی کامیابی کا بھی امکان ہے۔
معاشی تجزیہ کار عبدالعظیم کے مطابق مہنگائی میں اضافے سے متوسط طبقہ شدید متاثر ہوگا اور خاص طور پر نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان شدید متاثر ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کم آمدنی اور زیادہ اخراجات سے جہاں عام آدمی بے حد متاثر ہوگا وہیں شرح سود میں یکدم ایک فی صد اضافے کے بعد کئی صنعت کاروں کو صنعتیں چلانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ جس کے نتیجے میں یقیناً بے روزگاری بڑھے گی اور یوں مزید لاکھوں لوگ خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔
عبدالعظیم کے بقول، "عوام کو آنے والے دنوں میں مزید تکلیف دہ مہنگائی کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔"
معاشی تجزیہ کار کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ ناگزیر تھا اور روپے کی قدر میں مصنوعی استحکام سے بھی معشیت کے بیرونی سیکٹر کو شدید قسم کے خطرات لاحق تھے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران میں پھنسا ہوا ہے، ایسے میں سخت فیصلے لینا معاشی صورتِ حال کے لیے لازم ہیں۔
حبیب یونیورسٹی میں معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اقدس افضل کہتے ہیں روپے کی قدر میں حالیہ کمی کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ درحقیقت مہنگائی کی پہلی لہر ہے۔ جیسے جیسے ایندھن کی قیمتیں بڑھتی ہیں اسی طرح معیشت کے دیگر شعبوں میں بھی قیمتیں بڑھنے کے اثرات سامنے آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)کا تقاضا تھا کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر وعدے کے مطابق لیوی بڑھا کر اپنے محاصل پورے کرے اور اب چوں کہ حکومت کا خیال ہے کہ وہ اس پروگرام کو دوبارہ سے آگے لے کر چلنا چاہتی ہے تو یہ سب تو ہونا ہے۔ لیکن اس سے معاشی اور معاشرتی مسائل تو ضرور پیدا ہوں گے۔
ڈاکٹر اقدس افضل کا خیال ہے کہ ملک میں غریب طبقے کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈی فراہم کرنے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا کو استعمال کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ جو بہت ہی اعلیٰ تدوین شدہ ہے۔
ان کے بقول بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دیے جانے والے وظائف کو بڑھانے اور اسے مزید وسعت دینے کی ضرورت ہےتاکہ اس مشکل صورتِ حال میں انتہائی غریب افراد کی مدد کی جاسکے۔
تاہم ڈاکر اقدس نے اس بات پر بھی اصرار کیا کہ حکومت کو اپنے حجم اور اخراجات کو کم کرنے کے ساتھ محصولات میں اضافے کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ اور چیئر پرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شازیہ عطا مری کہتی ہیں حکومت کوشش کرے گی کہ آئی ایم ایف معاہدے کے اثرات غریب عوام پر نہ پڑیں۔
ان کے بقول وزیر اعظم شہباز شریف نے کفایت شعاری کو اپنانے کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی ہے جو اپنی سفارشات تیار کرکے جلد پیش کرے گی۔
شازیہ عطا مری کے مطابق حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈی کا اعلان کیا ہے تاکہ رعایتی نرخوں پر اشیائے خوردونوش کی فراہمی کے ذریعے ریلیف بڑھایا جا سکے۔