مصر کے پارلیمان نے منگل کے روز آئین میں ترامیم منظور کیں، جن کی بدولت صدر عبدالفتح السیسی کے لیے 2030ء تک اقتدار میں رہنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
ان ترامیم پر قومی ریفرینڈم کرایا جائے گا، جس کے بارے میں مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ مطلق العنانیت کی جانب ایک اور قدم ہے، جس سے آٹھ سال قبل جمہوریت کی حامی تحریک کے نتیجے میں حسنی مبارک کی آمریت ختم ہوئی، جو تین عشروں سے کرسی پر براجمان تھے۔
اسمبلی کے کُل ارکان کی تعداد 596 ہے، جہاں السیسی کے حامیوں نے کثرت رائے سے فروری میں ان ترامیم کی ابتدائی منظوری دی تھی، اور مجوزہ ترامیم کو آئینی اور قانونی امور کی قائمہ کمیٹیوں کے حوالے کیا گیا تھا تاکہ انہیں حتمی شکل دی جا سکے، جس پر منگل کے روز فیصلہ کُن ووٹنگ کرائی گئی۔
اسمبلی کی کارروائی سے پہلے اسپیکر علی عبدالسید احمد نے کہا کہ ’’ہم وہ کام پایہٴ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں جس کا آغاز ہم نے فروری میں کیا تھا‘‘۔
بقول اُن کے، ’’آج کے عظیم دن، ہم مصر کے عوام کو آئینی ترامیم پر مشتمل بل کا مسودہ پیش کر رہے ہیں‘‘۔
امکان ہے کہ قومی ریفرنڈم مئی کے اوائل میں ہوگا جب مقدس ماہ رمضان کا آغاز ہوگا۔
اپریل کے اوائل سے مصر کے دارالحکومت میں بڑے بڑے پوسٹر آویزاں ہیں جن میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ تبدیلیوں کے حق میں ووٹ دیں۔ قاہرہ کے وسطی ’تحریر اسکوائر‘ میں، جہاں 2011ء میں مبارک کے خلاف علامتی احتجاج کا آغاز ہوا، بغاوت نے جنم لیا اور مصر میں جمہوری تبدیلی کی امید پیدا ہوئی، لوگوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ریفرنڈم کے حق میں ووٹ ڈالیں۔