فلسطین کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں مستقل رکنیت کے لیے پیش کی جانے والی درخواست پر اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے پہلے قدم کے طور پر اس درخواست کو قبول کر لیا ہے۔ اس مہینے سیکیورٹی کونسل کی صدارت لبنان کے سفیر نواف سلام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ یہ درخواست نئی رکنیت پر غور کرنے والی کمیٹی کو بھیج دیں گے۔
یہ کمیٹی اقوام متحدہ کے تمام15 مستقل اور غیر مستقل رکن ممالک پر مشتمل ہے، جو جمعے کو فلسطین کی مستقل رکنیت کی درخواست پر غور کرے گی۔ درخواست کو منظوری کے لیے 15 میں سے 9 ووٹ درکار ہیں ۔ لیکن امریکہ پہلے ہی اس درخواست کو ویٹو کرنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ اوباما انتظامیہ کی کوشش ہے کہ ایسا موقع نہ آئے جس کے نتیجے میں عرب دنیا میں امریکہ کے بارے میں منفی جذبات ابھریں۔ امریکہ کا موقف ہے کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ صرف براہِ راست مذاکرات سے ہی حل ہو سکتا ہے نہ کہ ازخود ہی آزاد ریاست کے لیے درخواست دینے سے۔
حسام زوملوت برطانیہ میں فلسطین کے سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی مستقل رکنیت فلسطینیوں کا جائز حق ہے۔ان کا کہناہے کہ ہم ایک ایسے ماحول میں مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے اور غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کی بات نہیں کر سکتے جب قبضہ بڑھ رہا ہو۔ جب ہماری زمین ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہتھیائی جا رہی ہو۔ جب دوریاستی حل کو ہماری نظروں کے سامنے روندا جا رہا ہو۔ یہ گزشتہ بیس سال سے ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی آبادکاریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ دو ریاستی حل کا راستہ نہیں نکل رہا۔ فلسطینی قوم غزہ میں ایک محاصرے کی کیفیت میں ہےاور مغربی علاقے میں دیواروں اور چیک پوسٹوں کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ یروشلم کے فلسطینیوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ نہیں ہے۔ یہ ایک غیر معمولی صورتِ حال ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینی قیادت کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ مذاکرات کو مطالبات کے ساتھ مشروط نہ کیا جائے۔ جبکہ اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں 1100 رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔
ڈینی آیالون اسرائیل کے وزیرِ خارجہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امن اقوامِ متحدہ کے خطوط سے نہیں، بلکہ آپس میں بیٹھ کر بات کرنے سے آئے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ہیں ، ہمیں بھی شکایت ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے۔ وہ ہم سے براہِ راست بات کیوں نہیں کرتے۔ مذاکرات میں یہی ہوتا ہے کہ تمام مسائل پر ایک ساتھ بات کی جائے۔ یہ بہت افسوس ناک ہے کہ فلسطینی مذاکرات کے لیے غیر سنجیدہ ہیں۔
حنان اشراوی فلسطینی قانون ساز اور وزیر اعظم سلام فیاض کی تھرڈ پارٹی کی رکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اوباما انتظامیہ انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت کی بات کرتے ہوئے فلسطین کو بھول جاتی ہے۔ وہ عرب ملکوں میں انصاف اور جمہوریت کے لیے اٹھنے والی تحریکوں کا ساتھ تو دیتی ہے اور وہاں کے لوگوں کو ان تحریکوں کے لیے مبارکباد دیتی ہے مگر شاید فلسطین انہیں عرب خطے کا حصہ نہیں لگتا اس لیے وہ اپنی تقریروں میں فلسطین کو بھول جاتے ہیں۔
سیکورٹی کونسل فیصلہ کرنے میں چند ہفتوں یا مہینوں تک کا وقت لے سکتی ہے۔ امریکی انتظامیہ کی کوشش ہو گی کہ یہ درخواست 9 ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک کی تعداد 5 ہے جن امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین شامل ہیں ۔ جبکہ 10 غیر مستقل رکن ممالک میں بوسنیا ہرز،گوینا، برازیل، کولمبیا، گابون، جرمنی، بھارت، لبنان، نائجیریا، پرتگال اور جنوبی افریکہ شامل ہیں۔ امریکہ اور فلسطین دونوں کوشش کریں گے کہ وہ غیر مستقل رکن ممالک کو اپنے نظریے پر قائل کر سکیں۔
فلسطین کے وزیرِ خارجہ ریاض المالکی نے جمرات کو وائس آف فلسطین کے ایک ریڈیو میں کہا کہ سیکیورٹی کونسل کے آٹھ رکن ممالک نے فلسطین کی اقوامِ متحدہ میں مکمل رکنیت کے درخواست کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ ان ممالک میں روس، چین ،بھارت، برازیل، لبنان اور جنوبی افریقہ، نائجیریا اور گبون شامل ہیں ۔ المالکی نے کہا کہ فلسطینیوں کو نو ووٹوں کے لیے دو ممالک سے امید ہے جن میں بوسنیا اور کوملبیا شامل ہیں۔ کولمبیا اگرچہ جنوبی امریکہ کے ممالک اور خاص کروینزویلا کے صدر اوگو چاویز سے اپنے تعلقات بہتر بنا رہا ہے مگر اس کا تجارتی مفاد امریکہ سے جڑا ہے۔ المالکی نے کہا کہ فلسطینی قیادت بوسنیا ہرزِ گووینا کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
اس درخواست کی منظوری کے لیے وقت بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سال کے اختتام تک پانچ غیر مستقل ممالک کی رکنیت ختم ہوجائے گی جن میں برازیل اور لبنان بھی شامل ہیں ۔