مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک گرجے کو نذر آتش کرنے کے خلاف عیسائیوں کے احتجاج اور اس کے بعد فسادات میں کم از کم 23 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہو گئے۔
عہدے داروں نے بتایا کہ اتوار کو ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے ناصرف پیٹرول بموں کا استعمال کیا بلکہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں فوج کی کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی۔
فروری میں سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف احتجاجی تحریک کے بعد مصر میں ہونے والی یہ شدید ترین جھڑپیں تھیں۔
سینکڑوں بلوایوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور اس دوران سکیورٹی فورسز کی ایک بکتر بند گاڑی تیز رفتاری سے مظاہرین کی جانب بڑھی اور کئی افراد اس کے تلے کچلے گئے۔ جھڑپوں میں دو فوجی بھی ہلاک ہوئے۔
عیسائی مظاہرین کا کہنا تھا کہ شوبرا کے علاقے میں نکالی گئی پُر امن ریلی اس وقت پرتشدد احتجاج میں تبدیل ہوئی جب مصری ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی عمارت کی جانب بڑھنے والوں پر سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے حملہ کر دیا۔ احتجاج کا سلسلہ بعد میں شہر کے مرکزی التحریر اسکوائر تک پھیل گیا۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک کی عبوری کابینہ نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا۔ فوج نے التحریر اسکوائر اور اس کے گرد و نواح میں پیر کو طلوع آفتاب تک کرفیو بھی نافذ کیا۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مصر کے جنوبی حصوں میں مسلمانوں کی جانب سے گرجوں کی تعمیر کی مخالفت کے بعد دو مقامات پر فسادات ہو چکے ہیں۔