مصر کی حکومت کی جانب سے ملک میں گزشتہ چار روز سے جاری حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں کو روکنے کیلیے ملک کے تمام بڑے شہروں میں رات کا کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
منگل کے روز شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جمعہ کے روز اس وقت شدت اختیار کرگیا جب نمازِ جمعہ کے بعد مصر کے کئی شہروں میں لاکھوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ اس موقع پر مظاہرین کی پولیس سے شدید جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں بیسیوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
مصری حکومت کے اعلان کے مطابق دارالحکومت قاہرہ، اسکندریہ اور سوئز میں شام چھ بجے سے صبح سات بجے تک کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ تاہم کرفیو کے نفاذ کے باوجود ان شہروں میں مظاہرو ں کا سلسلہ جاری ہے اور کئی مقامات پر احتجاج کرنے والے نوجوانوں اور پولیس کے درمیان تصادم بھی ہوا ہے۔
میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق مصری صدر حسنی مبارک جمعہ کی شب قوم سے خطاب کرینگے۔ 82 سالہ صدر مبارک مظاہروں کے آغاز ہی سے منظرِ عام سے غائب ہیں اور اس دوران ان کا کوئی بیان بھی سامنے نہیں آیا۔
عرب ملک تیونس کے عوامی انقلاب کے زیرِ اثر ہونے والے مظاہروں کے اس سلسلہ کو مصر کی حالیہ تاریخ میں سب سے بڑا، منظم اور شدید احتجاج قرار دیا جارہا ہے۔ مظاہرین اقتدار کے سنگھاسن پہ گزشتہ 30 برسوں سے براجمان صدر حسنی مبارک کے استعفیٰ اور ملک میں معاشی اور سیاسی اصلاحات متعارف کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
جمعہ کے روز مصر کے کئی شہروں میں ہونے والے حالیہ احتجاجی مظاہروں کے شرکاء کو منتشر کرنے کیلیے پولیس نے آنسو گیس کے شیلز اور ربڑ کی گولیاں فائر کیں۔ کئی مقامات پر پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا اور پکڑے جانے والے نوجوانوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جواباً مظاہرین نے پولیس پر پتھرائو کیا اور کئی سرکاری گاڑیوں کو آگ لگادی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ ہزاروں مشتعل مظاہرین نے اسکندریہ میں ایک سرکاری عمارت کو نذرِ آتش کردیا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق ساحلی شہر سوئز میں جمعہ کے روز ہونے والے مظاہروں پر پولیس کے تشدد کے نتیجے میں کم از کم ایک فرد ہلاک بھی ہوا ہے۔
قاہرہ، اسکندریہ اور سوئز میں ہونے والے مظاہروں کی ٹی وی چینلز پہ چلنے والی فوٹیجز میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں اور تصادم ہوتے دکھایا گیا ہے۔ تینوں شہروں میں کرفیو کے نفاذ کے باوجود مظاہرین اب بھی ان شہروں کے کئی مقامات پر جمع ہیں اور ان کے اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری ہے۔
البرادعی کی نظربندی
دریں اثناء امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" کا کہنا ہے کہ مصری حکام نے اقوامِ متحدہ کی جوہری توانائی ایجنسی کے مصر سے تعلق رکھنے والے سابق سربراہ محمد البرادعی کو نظر بند کردیا ہے۔
مصر پہ 1981 سے برسرِ اقتدار حسنی مبارک کے خلاف ایک اہم متوقع صدارتی امیدوار تصور کیے جانے والے امن کے نوبیل انعام یافتہ البرادعی ملک میں جاری مظاہروں میں شرکت کی غرض سے جمعرات کی شب آسٹریا سے وطن واپس پہنچے تھے۔
انٹرنیٹ، موبائل سروس معطل
مصر بھر میں جمعرات کی شب سے انٹرنیٹ سروس معطل ہے جبکہ حکومت کی جانب سے موبائل فونز کی میسجنگ سروس بھی بند کردی گئی ہے۔ ٹیلی کام کی بین الاقوامی کمپنی "ووڈافون" کے مطابق مصری حکومت کی جانب سے تمام موبائل فون کمپنیوں کو ملک کے مخصوص حصوں میں سروس معطل کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حزبِ مخالف کی جماعتوں کی جانب سے نئے مظاہروں کے اعلان اور ان میں عوام کی شرکت یقینی بنانے کیلیے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس اور موبائل فون پر میسجز کا سہارا لیا جارہا تھا۔
سرکاری پابندی کا سامنا کرنے والی مصر کی حزبِ مخالف کی سب سے بڑی جماعت "اخوان المسلمین" کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے تنظیم کے پانچ مرکزی رہنما اور پانچ سابق اراکینِ اسمبلی کو ان کے گھروں پر چھاپے مار کر حراست میں لے لیا ہے۔ تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ اس کے ارکان ملک بھر میں جاری مظاہروں میں بھرپور شرکت کرینگے۔
مظاہروں کا اہتمام مختلف تنظیموں کی جانب سے کیا گیا ہے جبکہ ان کی قیادت غربت، بے روزگاری، سیاسی جبر اور کم تر معیارِ زندگی کے ستائے ہوئے مصری نوجوان کررہے ہیں۔
گزشتہ چار روز سے جاری مظاہروں کے دوران اب تک پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 800 کے لگ بھگ افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد کی تعداد دو ہزار سے بھی زائد ہوسکتی ہے۔
دریں اثناء گزشتہ تین روز سے جاری احتجاجی مظاہروں اور مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد چار ہوگئی ہے جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہیں۔
مظاہروں کا اہتمام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مصری نوجوان بھی تیونس کے عوامی انقلاب کو جنم دینے والے عوامل، بشمول غربت اور حکومتی جبر، کا شکار ہیں اور ان کی جانب سے یہ مظاہرے نوجوانوں کے غصے کا اظہار کرنے کیلیے منعقد کیے جارہے ہیں۔