مصر میں سکیورٹی فورسز نے تین مختلف کارروائیوں میں 40 مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
مصر کی وزارتِ داخلہ کے مطابق کارروائیاں ہفتے کو شمالی سینا اور الجیزۃ کے صوبوں میں تین مختلف مقامات پر کی گئیں۔
یہ کارروائیاں گزشتہ روز سیاحوں کی ایک بس پر ہونے والے بم حملے کے بعد کی گئی ہیں جس میں ویتنام سے تعلق رکھنے والے تین سیاحوں سمیت چار افراد مارے گئے تھے۔
تاہم وزارتِ داخلہ نے یہ نہیں بتایا کہ آیا مرنے والے دہشت گردوں کا سیاحوں کی بس پر حملے سے کوئی تعلق تھا یا نہیں۔
وزارت کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 30 مشتبہ شدت پسند صوبہ الجیزۃ کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سکیورٹی فورسز کے چھاپوں کے دوران مارے گئے۔
حکام کے مطابق ہلاک دہشت گرد ریاستی اداروں اور ملک کی سیاحت کی صنعت سے متعلق اہداف پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی میں شمالی سینا میں بھی 10 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
سینا کے علاقے میں داعش سمیت کئی شدت پسند تنظیمیں ملوث ہیں اور ماضی میں اس علاقے میں دہشت گردوں کے حملوں میں سیکڑوں سکیورٹی اہلکار مارے جاچکے ہیں۔
وزارتِ داخلہ نے نہ تو مرنے والے شدت پسندوں کی شناخت ظاہر کی ہے اور نہ ہی ان پر عائد الزامات کی وضاحت کی ہے۔
وزارت نے یہ بھی نہیں بتایا کہ آیا ان کارروائیوں میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو بھی کوئی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم سرکاری بیان میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ تینوں چھاپے بیک وقت مارے گئے۔
وزارت نے ہلاک ہونے والے مشتبہ شدت پسندوں کی بعض تصاویر بھی جاری کی ہیں جن میں ان کے چہرے چھپے ہوئے ہیں۔ تصویروں میں لاشوں کے ساتھ رائفلیں اور دیگر اسلحہ بھی پڑا ہے۔
اس سے قبل جمعے کو مصر کے مشہور الجیزۃ کے اہرام کےنزدیک ویتنامی سیاحوں سے بھری ایک بس کے نزدیک سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے تین سیاح اور ان کا ایک مصری گائیڈ ہلاک اور 10 زخمی ہوگئے تھے۔
مصر کے سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں کی کارروائیاں بڑھنے کے بعد ملک کی فوج اور پولیس نے رواں سال فروری میں جزیرہ نما سینا اور لیبیا کی سرحد کے ساتھ واقع جنوبی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
مصری سکیورٹی فورسز اب تک اس کارروائی میں سیکڑوں مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرچکی ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں مصری حکام کے ان دعووں پر شبہات کا اظہار کرتی آئی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی شکایات بھی ہیں۔