احتجاجی مظاہروں کے تنازع میں ملوث صدر حسنی مبارک کی حکومت نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے اپنے ایک اتحادی پر مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے، جب کہ امریکہ نےخبردار کیا ہے کہ مصر نے اصلاحات سے متعلق اپنے عوام کے مطالبے ماننے میں معمولی پیش رفت بھی نہیں دکھائی۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گِبز نے بدھ کے روز کہا کہ امریکہ انتظار میں ہے کہ عبوری دور کی طرف پیش رفت کے لیے مصر‘اصل اور ٹھوس ’ اقدامات اٹھائے۔
گِبز نے کہا کہ حکومت مخالف احتجاجیوں کی قاہرہ کی سڑکوں پر بڑھتی ہوئی تعداد قطعی طور پر حیران کُن بات نہیں لگتی کیونکہ اُن کی تشویش کے معاملات پر عدم توجہی صاف نظر آرہی ہے۔
امریکی براڈکاسٹنگ ادارے ‘پی بی ایس’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مصری وزیرِ خارجہ احمد عبدالغیث نے مصر کی صورتِ حال پر اوباما انتظامیہ کی طرف سے دیے گئے حالیہ بیانات کی سخت مذمت کی ہے۔
عبد الغیث نے کہا کہ اُنھیں حیرانگی ہے کہ امریکی نائب صدر جوبائیڈن سنہ 1981 سے جاری ایک ہنگامی قانون کا فوری طور پرخاتمہ چاہتے ہیں جس کی مدد سےبغیر الزام دھرے گرفتاری عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ اِس وقت 17000قیدی مصر کی سڑکوں پر کھلے عام پھر رہے ہیں جنھیں جیل کی عمارتوں کو مسمار کرکے چھڑوایا گیا، اور کہا کہ قوم کو مستحکم ہونے کے لیے وقت درکار ہے۔
اِس انتہائی غیر مقبول قانون کو معطل کرنا اُن متعدد اقدامات کا حصہ ہے جن کے بارے میں بائیڈن نے اپنے مصری ہم منصب عمر سلیمان سے مطالبہ کیا ہے، جس قدم کا اٹھایا جا نا مصر کے لیے لازم ہے۔ مصر کو اس وقت تاریخی نوعیت کے احتجاجوں کا سامنا ہے جس میں مسٹر مبارک کے فوری اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔